امریکہ اور طالبان نے بین الاقوامی مبصرین کی موجودگی میں 29 فروری کو امن معاہدے پر دستخط کرنے کی تصدیق کی ہے۔
دونوں جانب سے اس حوالے سے الگ الگ بیانات جاری کیے گئے ہیں۔ جس کے بعد افغانستان میں جاری طویل جنگ کے خاتمے کی امید روشن ہو گئی ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ امریکہ اور طالبان نے امن معاہدے پر دستخط پر اتفاق کیا ہے اور اس حوالے سے 29 فروری کو باقاعدہ تقریب منعقد ہو گی۔
طالبان کے بیان کے مطابق دستخط کی تقریب سے قبل دونوں طرف سے سیکیورٹی صورتِ حال میں بہتری لائی جائے گی۔ دستخط کی تقریب کے لیے مختلف ملکوں کے نمایاں نمائندوں اور تنظیموں کو تقریب میں شرکت کے دعوت نامے ارسال کیے جائیں گے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ قیدیوں کی رہائی، بین الافغان مذاکرات اور غیر ملکی افواج کے انخلا کر عمل بھی شروع ہو گا۔
امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بھی تصدیق کی ہے کہ امریکہ 29 فروری کو طالبان کے ساتھ امن معاہدے کی تیاری کر رہا ہے۔
امریکی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ حالیہ چند ہفتوں کے دوران امریکہ کے مذاکرات کاروں نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان رہنماؤں سے مذاکرات کے بعد ملک بھر میں تشدد کے خاتمے کا سمجھوتہ کیا ہے۔
اُن کے بقول، اس سمجھوتے پر کامیاب عمل درآمد کے بعد امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ متوقع ہے۔
مائیک پومپیو کے مطابق امن معاہدے پر دستخط کے بعد بین الافغان مذاکرات شروع ہوں گے جو مکمل جنگ بندی کی راہ ہموار کرے گا۔
نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے تشدد میں کمی کے حوالے سے امریکہ، طالبان مفاہمت کا خیر مقدم کیا ہے۔
اپنے ایک بیان میں اسٹولٹن برگ نے کہا کہ یہ طالبان کے لیے تشدد کے خاتمے کے لیے اپنی مخلصانہ کوششوں کے اظہار کا اہم موقع ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ اس اقدام سے بین الافغان مفاہمت اور دیرپا امن کی راہ ہموار ہو گی۔ نیٹو سیکریٹری نے اُمید ظاہر کی کہ امن معاہدے کے بعد افغانستان دہشت گردوں کا محفوظ ٹھکانہ نہیں رہے گا۔
یاد رہے کہ طالبان، امریکہ اور افغان فورسز نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ امن معاہدے سے قبل فریقین ایک ہفتے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔
افغانستان میں جاری طویل جنگ کے خاتمے کے لیے امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کو تاریخی قرار دیا جا رہا ہے۔
اس سے قبل افغانستان کی قومی سلامتی کی کونسل کے ترجمان جاوید فیصل کا کہنا تھا کہ امن معاہدے سے قبل طالبان اور امریکہ کے درمیان عارضی جنگ بندی کا آغاز 22 فروری کی صبح سے ہو گا جو سات روز تک جاری رہے گا۔
طالبان کے ایک سینئر رہنما کے مطابق امن معاہدے پر دستخط کے فوراً بعد امریکہ اور افغان حکومت 5000 طالبان قیدیوں کو رہا کریں گے جب کہ اس کے جواب میں طالبان اپنی حراست میں موجود تقریباً ایک ہزار قیدی چھوڑیں گے۔
تاہم امریکہ یا افغان حکومت کی طرف سے اب تک معاہدے کے مندرجات منظر عام پر نہیں آئے ہیں۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن یعنی یواین اے ایم اے نے تشدد میں سات روزہ کمی کے اعلان کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک بے مثال موقع ہے جس سے افغانستان میں پائیدار امن کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ افغان قیادت کے ایسے عمل میں تمام پارٹیوں کے ساتھ کام کرنے کے عزم پر قائم ہے جس میں خواتین، اقلیتیں اور نوجوان بھی شامل ہوں اور جو تمام شہریوں کے انسانی حقوق کی حمایت کرتا ہو، اور جو افغانستان میں پائیدار امن کی راہ ہموار کرتا ہو۔
واشنگٹن نے اپنے اس مؤقف پر زور دیا ہے کہ صرف اس صورت میں طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر آگے بڑھا جائے گا جب وہ تشدد میں کمی سے متعلق باہمی طور پر طے شدہ سمجھوتے پر کامیابی سے عمل درآمد کریں گے۔
SEE ALSO: 'امن معاہدے کے بعد بین الافغان مذاکرات کا مرحلہ طویل اور کٹھن ہو سکتا ہے'فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق افغانستان میں امریکی فوج کے ذمہ داران نے اس حوالے سے تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے تاہم پاکستان میں موجود ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ ہفتے کو جزوی جنگ بندی کی جائے گی۔
پاکستان میں موجود طالبان ذرائع کے حوالے سے 'اے ایف پی' کا بتانا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہے کے بعد 10 مارچ سے بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہو گا۔
افغانستان کے جنوبی صوبے قندھار کو طالبان کا اہم مرکز سمجھا جاتا ہے۔ وہاں طالبان کے ایک نمائندے نے 'اے ایف پی' کو بتایا ہے کہ مرکزی قیادت کی جانب سے اُنہیں ایک ہفتے کے لیے حملے نہ کرنے کا حکم موصول ہوا ہے اور وہ اس پر عمل درآمد کے لیے تیار ہیں۔
یاد رہے کہ افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدے کو افغانستان میں جنگ کے خاتمے اور افغانستان کی ترقی کے لیے پہلے قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔