’پدماوت‘ ایسے دلکش کھانے کی طرح ہے جس سے نہ آنکھیں بھریں، نہ ہی پیٹ

یہ فلم بھارتی فلم انڈسٹری کی مہنگی ترین فلموں میں سے ایک ہے جس پر تقریباً 200 کروڑ روپے لگائے گئے اور نظر بھی آتا ہے

فلم دیکھنے آرلنگٹن ورجینیا کے ایک مقامی تھیٹر میں پہنچا، تو فلم شروع ہونے میں 10 منٹ تھے اور ہال میں دس فلم بین تھے۔ البتہ، فلم شروع ہونے کے بعد، یعنی فلم کے پہلے 10 منٹ میں دس اور لوگ ایک ایک کرکے ہال میں داخل ہوتے رہے۔ واقعی، ایک دیسی فلم کا مزا۔

خیر، بات کرتے ہیں فلم کی جو کئی مشکلات کے بعد آخر کار ’پدماوتی‘ سے ’پدماوت‘ بن کر ریلیز ہوئی جو سولہویں صدی میں ملک محمد جیاسی کی لکھی ہوئی ایک افسانوی نظم ’پدماوت‘ سے ماخوذ ہے۔

فلم شروع ہوتی ہے افغانستان میں جلال الدین خلجی کے دربار سے جہاں نوجوان علاوالدین خلجی بھی موجود ہے، جسے ایک کھلنڈرا اور جنگجو آدمی دکھایا گیا ہے۔ اس کی شادی جلال الدین خلجی کی بیٹی سے ہوتی ہے۔ اور پھر وہ ہندوستان کا بادشاہ بھی بن جاتا ہے۔ لیکن، ایک ہندو راجپوت مہارانی پدماوتی (جس کے بارے میں اس نے صرف سنا ہے کہ وہ بہت حسین ہے) کو پانے کے لیے وہ چتوڑ کی بادشاہت پر حملہ کرتا ہے۔ اور کیا وہ مہارانی پدماوتی کو دیکھ پاتا ہے یا حقیقت میں پا سکتا ہے؟ یہی فلم کی کہانی ہے۔

پہلے بات کرتے ہیں اس فلم پر ہونے والے تنازعے اور بحث کی۔ چونکہ فلم ایک ہندو اور راجپوت مہارانی پر بنائی گئی ہے، تو کچھ ہندو اور راجپوت تنظیموں نے اس خدشے کے تحت کہ ہندو مہارانی کو ایک مسلمان کے ساتھ دکھایا گیا ہے اور شاید راجپوتوں کی شان کے خلاف باتیں کی گئی ہیں، فلم کا بائیکاٹ کیا تھا اور اس کی ریلیز کو خطرے میں ڈال دیا۔ فلم گزشتہ سال دسمبر میں ریلیز ہونی تھی۔ لیکن، آخرکار بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے نمائش کی اجازت ملنے پر 25 جنوری تک مؤخر ہوتی رہی۔

جہاں تک بات ہے علاوالدین خلجی اور رانی پدماوتی کی، تو پوری فلم میں دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے نہیں آتے اور نا ہی ان کے درمیان کوئی رومانوی منظر فلم کا حصہ ہے۔ شاید اسے کاٹ دیا گیا ہو؟ کیونکہ فلم کے کچھ حصے اور نام اس تنازعے کے بعد بدلا گیا تھا۔ جہاں تک بات ہے راجپوتوں کی تو پوری فلم راجپوتوں کی شان میں لکھے گئے ایک قصیدے کی طرح لگتی ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس فلم کو پاکستان میں نمائش کی اجازت بغیر کسی حیل و حجت کے مل گئی ہے۔ سینٹرل بورڈ آف فلم سنسرز پاکستان نے فلم کو بغیر کسی تبدیلی کے پاس کر دیا ہے۔

فلم کے ہدایتکار ہیں سنجے لیلا بھنسالی، جو اپنے منفرد اور گرینڈ سٹائل کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ ان کی فلمیں تاریخی کہانیوں کو انتہائی تخیلاتی، افسانوی اور عظیم الشان انداز سے پیش کرتی ہیں۔ اگر اس فلم کا ان کی گزشتہ فلموں سے موازہ کیا جائے تو بلاشبہ یہ فلم بہت بڑے سکیل پر بنی ہے۔

فلم کے ہر ایک سین پر کسی پینٹنگ کا گمان ہوتا ہے۔ کیوں نہ ہو۔ یہ فلم بھارتی فلم انڈسٹری کی مہنگی ترین فلموں میں سے ایک ہے جس پر تقریباً 200 کروڑ روپے لگائے گئے اور نظر بھی آتا ہے۔ لیکن جہاں سنجے لیلا بھنسالی چوک گئے وہ ہے فلم کی کہانی۔ کہانی میں حیرت اور تعجب کا عنصر، جسے عرف عام میں ٹووسٹ کہا جاتا ہے، ندارد۔ یعنی فلم کی کہانی اتنی سادہ سی ہے کہ آپ کو پتا چلتا جاتا ہے کہ اب کیا ہوگا۔ حالانکہ، فلم کے طویل اور تھکا دینے والے کلائمکس میں آپ کو پتا ہوتا ہے کہ آگے کیا ہوگا۔لیکن، آپ ایک روبوٹ کی طرح پردہ سکرین پر جلوہ گر ہونے والے نہایت دلکش مناظر دیکھتے جاتے ہیں۔

فلم میں کامیڈی اور ایکشن کی کمی نظر آئی۔ جنگ و جدول کے وہ مناظر جو تاریخی فلموں کا خاصے ہوتے ہیں وہ فلم میں صرف تصور ہی کیے جاتے ہیں، کیونکہ جب دو فوجیں ٹکراتی ہیں تو اس کے بعد کیمرہ بس اڑتی ہوئی خاک ہی دکھاتا ہے ۔۔۔ اور کسی بڑے معرکے کو دیکھنے کی تشنگی سی رہ جاتی ہے۔ فلم کا میوزک ٹھیک ٹھاک ہے اور فلم کی کہانی کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔

فلم کا مرکزی کردار ’مہارانی پدماوتی‘ ادا کیا ہے دیپیکا پادکون نے اور اسے نہایت خوبصورتی سے نبھایا ہے۔ ان کی اداکاری اور پردہ سکرین پر ان کا حسن بلاشبہ اس فلم کے ستون ہیں۔ لیکن، شاید ہدایتکار کی چوک ان کے کردار پر بھی نظر آئی جہاں ان کی آنکھیں پوری فلم میں نم ہی رہیں، سین چاہے ایکشن ہو یا غمگین دیپیکا پادکون کی آنکھوں میں لالی اور پانی موجود رہا۔ لیکن، ایک بات میں وہ واقعی سب کو پیچھے چھوڑ گئیں کہ انھیں اس فلم میں کام کرنے کا معاوضہ فلم کے دونوں مرد کرداروں کے مقابلے میں زیادہ ملا جس کی تصدیق انھوں نے ایک حالیہ انٹرویو میں بھی کی۔

پدماوتی کے شوہر اور مہاراجہ رتن سنگھ کا کردار ادا کیا ہے شاہد کپور نے اور کیا خوب ادا کیا۔ وہ ایک مہاراجہ دکھے اور ان کی چال ڈھال، انداز گفتگو اور لباس سب ہی خوب جچے۔ لیکن، کچھ مناظر میں وہ دیپیکا اور رنویر سنگھ کے کرداروں کے سامنے تھوڑے ڈھیلے بھی نظر آئے۔ ان کا قد کاٹھ شاید یہاں کچھ فرق ڈال گیا، خاص طور سے کلائیمکس کے سین میں رنویر سنگھ کے کردار کے سامنے وہ کمزور لگے جس میں ان کے کاسٹیوم کو قصوروار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔

علاؤالدین خلجی کے جنگجو کردار میں رنویر سنگھ نے اپنے آپ کو نہایت مہارت سے ڈھالا۔ لیکن، اس کردار میں ان کے لیے پھر سے وہ گہرائی اور الجھاؤ نہیں تھا جس کے لیے وہ جانے جاتے ہیں۔ ڈائریکٹر نے انھیں ایک جنگجو بادشاہ کا کردار دیا اور انھوں نے بلکل ویسا ہی کردار نبھایا، جس میں ان کی ادکاری کی صلاحتیں کچھ محدود رہیں۔

بھارت میں نمائش

معاون اداکاروں میں علاوالدین خلجی کے خادم کے کردار میں جم ساربھ نے یادگار پرفارمنس دی۔ ملک کافور نامی کردار میں وہ ایسے کھوئے کے ان کی اصلی پہچان یاد ہی نا رہی۔ یقیناً آنے والے مختلف ایوارڈز میں ان کا نام بار بار سنائی دے گا۔

باقی اداکاروں میں آدیتی راؤ حیدری، رضا مراد اور انوپریا گونیکا قابل ذکر رہے۔

فلم کی کہانی نہایت سادہ، لیکن سکرین پلے الجھاؤ کا شکار دکھائی دیا وجہ شاید اس فلم پر اٹھنے والا تنازعے کے بعد اس میں کیے جانے والے رد و بدل ہوں۔ لیکن، دو انتہائی مختلف بادشاہوں کے کردار بھی ہضم نہیں ہوئے جہاں خلجی جنگجو اور بدتہذیب دکھایا گیا، وہیں راجہ رتن سنگھ ایک بااُصول اور شائستہ۔ لیکن، لڑائی دونوں ہی کرنا چاہتے ہیں اور وہی لڑائی پوری فلم میں کہیں نظر نا آئی۔ راجپوت کردار کبھی نہایت شستہ اردو بولتے تو کبھی راجپوتانہ ہندی یہ کچھ عجیب سا لگا۔ اور آخر میں ’جوہر‘ کی روایت کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے، جو ’ستی‘ کی رسم سے ملتی جلتی راجپوتوں کی ایک روایت دکھائی گئی ہے۔

اس کو کیسے دکھایا گیا، یہ تو آپ فلم میں ہی دیکھ سکیں گے۔ لیکن، اگر پوری فلم میں میدان جنگ میں ایک بڑے معرکے کو نا دکھایا جا سکا تو عورتوں کا آگ میں کودنا کیوں دکھانا ضروری تھا؟ اور وہ بھی ایک رومانوی داستان کے انت کے طور پر؟ یہ سوال شاید سنجے لیلا بھنسالی کے سامنے بار بار آئے گا۔

دیکھنے میں یہ فلم سینما کی دنیا میں آرٹ کا ایک نادر نمونہ ہے جس میں اداکاری، ڈائیلاگ، ملبوسات اور فلم کا کیمرہ ورک قابل ستائش رہے۔

بحرحال، تھری ڈی میں فلم ’پدماوت‘ ایسے دلکش کھانے کی طرح لگی جس سے نہ آنکھیں بھریں، نہ ہی پیٹ۔