پیرس میں 'فالتو خوراک' کا ماحول دوست استعمال

فائل فوٹو

فرانس کے دارالحکومت سے تیس کلومیٹر دور ایک پلانٹ میں اس فاضل مواد سے بائیو گیس اور کھاد تیار کی جا رہی ہے۔

اقوام متحدہ کے زیر اہتمام پیرس میں جاری کانفرنس میں دنیا بھر سے آئے مندوبین اور ماہرین کو جو کھانا اور خوراک فراہم کیا جا رہا ہے ایک اندازے کے مطابق اس سے تقریباً ایک ٹن بچ جانے والی خوراک، پھلوں اور سبزیوں کے چھلکوں کو بھی کارآمد انداز میں استعمال میں لایا جا رہا ہے۔

فرانس کے دارالحکومت سے تیس کلومیٹر دور ایک پلانٹ میں اس فاضل مواد سے بائیو گیس اور کھاد تیار کی جا رہی ہے۔

موئلینو کومپوس اینڈ بائیوگیس نامی کمپنی کے سربراہ اسٹیفاں مارینز کہتے ہیں کہ "فرانسیسی میں ہم کہتے ہیں کہ جو زمین سے آتا ہے وہ زمین میں ہی جاتا ہے۔۔۔اور بچ جانے والی خوراک سے یہ ممکن ہے۔"

ان کی کمپنی ریستورانوں اور دیگر اداروں کو بچ جانے والی فالتو خوراک کے صحیح استعمال سے متعلق معاونت فراہم کرتی ہے۔

فرانس کی حکومت بھی مختلف شعبوں پر یہ زور دیتی آ رہی ہے کہ وہ اپنے ہاں بچی کو ہوئی فالتو خوران کو دیگر کوڑے کرکٹ سے علیحدہ کریں تاکہ اس سے توانائی کے پیداوار میں مدد لی جائے۔

اس ضمن میں 2016ء کے اوائل سے ایک نیا قانون نافذ العمل ہونے جا رہا ہے جو کہ ان تمام اداروں اور کمپنیوں پر لاگو ہو گا جہاں فاضل مواد کی مقدار سالانہ دس ٹن سے زائد ہے۔

اس اعتبار سے ایک اندازے کے مطابق ہر وہ ریستوران جو دن میں دو سو لوگوں کو کھانا فراہم کرتا ہے وہ اس قانون کے زمرے میں آئے گا۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو تقریباً 80 ہزار ڈالر جرمانہ اور دو سال قید کی سزا ہوگی۔

بتایا جاتا ہے کہ یہ اقدام فرانس کی طرف سے مضر صحت گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔