پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے ایک ماہ سے زائد عرصے سے بند پاک-افغان سرحد فوری طور پر کھولنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔
وزیراعظم نے پیر کو ایک بیان میں کہا کہ ’’باوجود اس امر کے کہ حالیہ دنوں میں پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے تانے بانے افغان سر زمین پر موجود پاکستان دشمن عناصر سے جا ملتے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان صدیوں کے مذہبی، ثقافتی اور تاریخی رابطے اور تعلق کے پیش نظر، سرحدوں کا زیادہ دیر تک بند رہنا عوامی اور معاشی مفادات کے منافی ہے۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ تمام تر چیلنجوں کے باوجود پاکستان نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ خیرسگالی کے جذبے کے تحت یہ سرحدیں فوری کھول دی جائیں۔
وزیراعظم نواز شریف نے اس اُمید کا اظہار بھی کیا کہ جن وجوہات کی بنا پر یہ قدم اٹھایا گیا تھا، اسکے تدارک کے لیے افغانستان حکومت تمام ضروری اقدامات کرے گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے اسلام آباد، کابل حکومت سے تعاون کی پالیسیوں پر عمل درآمد جاری رکھے گا۔
اسلام آباد میں تعینات افغانستان کے سفیر حضرت عمر زخیلوال نے ایک تحریری بیان میں سرحد کھولنے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ گزشتہ ہفتے لندن میں دونوں ملکوں کے عہدیداروں کے درمیان ملاقات میں دیگر معاملات کے علاوہ سرحدی راستے کھولنے پر بھی بات چیت ہوئی تھی۔
پاکستان افغانستان مشترکہ چمبر آف کامرس کے صدر زبیر موتی والا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سرحد کھلنے کے احکامات کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ تاجروں کے ٹرک اور کنٹینر سرحد کی بندش کے سبب گزشتہ ایک ماہ سے پھنسے ہوئے تھے اور اُنھیں خاصا مالی نقصان ہو رہا تھا۔
’’پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں کا جو معاملہ ہے، اس بارے میں بارہا میں کہہ چکا ہوں کہ دونوں ملکوں کے جو حکمران ہیں وہ سیاست اور تجارت کو الگ الگ کر دیں۔۔۔ اس سے افغانستان اور پاکستان کے عوام کا بہت بڑا نقصان ہوتا ہے۔‘‘
فروری کے وسط میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردوں کے مہلک حملوں میں 120 سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد پاکستان نے سلامتی کے خدشات کی وجہ سے پاک افغان سرحدی راستے بند کر دیئے تھے۔
پاکستان کا یہ موقف ہے کہ ملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کی منصوبہ بندی سرحد پار افغانستان میں چھپے دہشت گردوں نے کی۔
پاکستان کی طرف سے افغانستان سے یہ مطالبہ بھی کیا جاتا رہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر موجود دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے۔
افغانستان کی طرف سے بھی ایسا ہی موقف اختیار کیا جاتا رہا ہے کہ پاکستان بھی اپنے ہاں موجود دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کا خاتمہ کرے۔
سرحد کی بندش کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں پائی جانے والی کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔
اسی کشیدگی میں کمی اور سرحد کی بندش سے متعلق صورت حال پر بات چیت کے لیے گزشتہ ہفتے لندن میں پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر حنیف اتمر کے درمیان ملاقات ہوئی تھی۔
رواں ماہ کی سات اور آٹھ تاریخ کو طورخم اور چمن کے مقام پر پاک افغان سرحدی راستے دو روز کے لیے عارضی طور پر کھولے گئے تاکہ وہ افغان اور پاکستانی اپنے اپنے ممالک واپس آ سکیں جو باقاعدہ ویزا لے کر ایک سے دوسرے ملک گئے ہوئے تھے۔
سرحد کی بندش سے دونوں ہی جانب عام لوگوں اور تاجروں کو مشکلات کا سامنا ہے اور افغانستان کی طرف سے پاکستان سے مسلسل یہ کہا جاتا رہا ہے کہ سرحد ہر طرح کی آمد ورفت کے لیے کھولی جائے۔