سابق افغان صدر پروفیسر براہان الدین ربانی نے توقع ظاہر کی ہے کہ افغانستان میں دیرپا امن کے قیام کی کوششوں میں پاکستان حمایت اور تعاون کو جاری رکھے گا۔
افغانستان میں سیاسی مفاہمت کی کوششوں کو فروغ دینے کے لیے قائم کی گئی ’اعلیٰ امن کونسل‘ کے سربراہ ان دنوں پاکستان کا پہلا دورہ کررہے ہیں جہا ں اسلام آباد میں اُن کا پندرہ رکنی وفد پاکستانی قائدین سے ملاقاتیں کررہا ہے۔ پروفیسر ربانی کا وفد صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے بھی ملاقات کریں گے۔
بدھ کو وزارت خارجہ میں وزیر مملکت برائے امورِ خارجہ ملک عماد خان کی قیادت میں پاکستانی وفد سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے پروفیسر ربانی نے کہا کہ افغانستان اور خطے میں امن کے قیام کی کوششوں کے سلسلے میں برادر ملک پاکستان کا تعاون حاصل کرنے کے لیے اعلیٰ امن کونسل کا حالیہ دورہ ”اس سفر کی جانب پہلا قدم ہے“۔
پروفیسر ربانی نے سوویت جہاد کے وقت زیادہ وقت پاکستان میں گزارا اس لیے وہ اُردو زبان بھی روانی سے بولتے ہیں۔ وائس آف امریکہ کی اُردو سروس سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا ”ہماری میٹنگ بہت اچھی میٹنگ تھی اور ہمیں اُمید ہے کہ امن کے اس عمل میں پاکستان کی حکومت اور عوام دونوں ہماری مدد کریں گے۔“
اُنھوں نے کہا کہ افغان حکومت سمجھتی ہے کہ جنگ مسائل کا حل نہیں ہے بلکہ یہ صورت حال کو مزید خراب کررہی ہے۔ سابق افغان صدر نے کہا کہ سوویت جہاد کے وقت پاکستان کی مدد اور لاکھوں افغان مہاجرین کو صبروتحمل کے ساتھ اپنے ہاں پناہ دینا قابل تحسین اقدامات ہیں۔ ” یقینا افغانستان کی تعمیر نو، اقتصادی ترقی خصوصاَ دو طرفہ تجارتی معاہدے اور افغانستان کے راستے ترکمانستان سے گیس پائپ لائن بچھانے جیسے منصوبے پر دستخط ایسے پاکستانی اقدامات ہیں جن کی افغان قدر کرتے ہیں۔“
اُمورِ خارجہ کے وزیر مملکت عماد خان نے افغان وفد کے ساتھ بات چیت کو بہت مفید قرار دیا جس میں پچھلے تین سالوں کے دوران دو طرفہ تعاون کو فروغ دینے کے اقدامات اور معاہدوں کا جائزہ لیا گیا۔
پاکستانی وزیر نے کہا کہ اُن کا ملک افغانستان کی قیادت میں کی جانے والی امن کی کوششوں میں مدد کے لیے تیارہے۔
”ہماری خواہش ہے کہ اعلیٰ امن کونسل کو اپنے مقصد میں کامیابی حاصل ہواور حکومت پاکستان اس موقف کا اعادہ کرتی ہے کہ ہم افغانستان کی علاقائی خودمختاری کا احترام اور اپنے ہمسایہ ملک کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی پر قائم ہیں۔“
افغانستان میں طالبان کے ساتھ سیاسی مفاہمت کے امکانات کا جائزہ لینے کے لیے صدر حامد کرزئی نے اعلیٰ امن کونسل کے قیام کا اعلان گزشتہ سال کیا تھا تاہم اکتوبر میں اپنی سرگرمیاں شروع کرنے کے بعد اب تک عسکریت پسندوں کے ساتھ مفاہمت کے سلسلے میں کسی طرح کی پیش رفت کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
اس کونسل میں70 افراد کو نمائندگی دی گئی ہے لیکن اس میں عبدالرب رسول سیاف اور شیر محمد اخونزادہ جیسی متنازع شخصیات کی شمولیت کے باعث یہ کونسل خود افغانستان میں تنقید کاہدف بھی بنی ہوئی ہے۔
1990ء کی دہائی میں افغانستان میں خانہ جنگی کے وقت افغان جنگجو کمانڈر رسول سیاف پر ہزاروں شہریوں کو ہلاک کرنے کے الزامات ہیں جبکہ صدر کرزئی نے اخونزادہ کو جنوبی صوبہ ہلمند کے گورنر کے عہدے سے برطرف کر دیا تھا کیونکہ اُن کی رہائش گاہ کے تہ خانے سے نو ٹن افیون اور ہیرون برآمد ہوئی تھی۔
اعلیٰ امن کونسل پر افغان پارلیمان کے اراکین بھی تنقید کررہے ہیں کیونکہ اُن کے خیال میں ریاست کی نمائندگی کرنے کے لیے ملک کے آئین میں کسی ایسے ادارے کے قیام کی گنجائش نہیں ہے۔
اس کے علاوہ افغان وفد ایک ایسے وقت پاکستان کا دورہ کررہا ہے جب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی حکومت پارلیمان میں اکثریت سے محروم ہونے کے بعد ان دنوں اپنی بقاء کی جنگ میں مصروف ہے۔
ناقدین کے خیال میں ان حالات میں افغان امن کونسل کے دورہ پاکستان کے کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے آنے کی توقع نہیں۔