افغانستان میں طالبان عسکریت پسندوں سے مفاہمت اور قیام امن کی کوششوں پر تبادلہ خیال کے لیے افغان، امریکی اور پاکستانی عہدے دار منگل کے روز کابل میں ملاقات کر رہے ہیں۔
اس سہ فریقی اجلاس میں پاکستان کے وفد کی سربراہی سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر کر رہے ہیں۔
تینوں اتحادیوں کے درمیان مذاکراتی عمل کا بنیادی مقصد 10 برس سے جاری افغان جنگ کا سیاسی حل تلاش کرنا ہے لیکن توقع کی جارہی ہے کہ منگل کو ہونے والے اجلاس میں زیر بحث موضوعات میں پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں پیش آنے والے حالیہ واقعات سر فہرست رہیں گے۔
افغان صدر حامد کرزئی نے اتوار کے روز کہا تھا کہ گزشتہ تین ہفتوں کے دوران پاکستان کی طرف سے افغان حدود میں 470 راکٹ داغے گئے۔ لیکن پاکستان کی فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے افغان دعوؤں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی جانب سے ”دانستہ طور پر“ کوئی گولہ باری نہیں کی گئی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ترجمان کا کہنا تھا کہ حالیہ ہفتوں میں عسکریت پسند افغان سرحد عبور کرکے پاکستان کے ضلع دیر اور قبائلی علاقوں باجوڑ اور مہمند میں سکیورٹی فورسز پر پانچ بڑے حملے کر چکے ہیں، جن میں 50 سے زائد اہلکار ہلاک ہوئے۔ اُنھوں نے کہا کہ پاکستانی فورسز نے افغانستان کی طرف پسپائی اختیار کرنے والے ان جنگجوؤں کو نشانہ بنایا ہے اور اس دوران عین ممکن ہے کہ چند گولے حادثاتی طور پر افغان حدود میں بھی گرے ہوں۔
دریں اثنا منگل کو ہونے والے سہ فریقی اجلاس سے ایک روز قبل امریکہ وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا تھا۔
وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات کے علاوہ کابل میں ہونے والے سہ فریقی اجلاس پر بھی بات چیت کی۔
حالیہ دونوں میں کئی افغان اور امریکی عہدے دار اس بات کی تصدیق کر چکے ہیں کہ افغانستان میں امن و امان قائم کرنے کے لیے طالبان عسکریت پسندوں سے مذاکرات کیے جا رہے ہیں۔
صدر حامد کرزئی نے رواں ماہ اپنے دورہ پاکستان میں اس مفاہمتی عمل کے فروغ اور اس کا جائزہ لینے کے لیے اعلان کردہ پاک افغان مشترکہ کمیشن کے افتتاحی اجلاس میں بھی شرکت کی تھی۔
پاکستان کا موقف سے کہ وہ افغانستان کی قیادت میں ہونے والی مفاہمت کی کوششوں میں ہر قسم کا کردار ادا کرنے پر تیار ہے۔