کئی مہینوں سے اسلام آباد اور واشنگٹن میں سرکاری عہدے دار پاکستان اور امریکہ کے درمیان مشکلات سے دو چار تعلقات کو نئی نہج پر قائم کرنے کی باتیں کرتے رہے ہیں اگر چہ نئی نہج کے بارے میں ان کے خیالات کسی حد تک مختلف ہیں۔ لیکن جب پاکستان کے نقطۂ نظر سے نئے انداز کے تعلقات کے خدو خال واضح ہوئے، تو ان کا اظہار حکومت کی طرف سے نہیں بلکہ پارلیمینٹ کی طرف سے ہوا۔
ان میں پاکستان کی سر زمین پر بغیر پائلٹ والے ڈرون جہازوں کے حملوں کا خاتمہ، امریکہ کی طرف سے اس قسم کی یکطرفہ فوجی کارروائیوں پر پابندی جیسی ایبٹ باد میں کی گئی جس میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا گیا، پاکستان کی سرزمین پر امریکی انٹیلی جنس کی کارروائیوں کی ممانعت، اور انٹیلی جنس کے کارندوں اور سیکورٹی کنٹریکٹرز کو ویزوں کے اجرا پر مکمل پابندی شامل ہیں ۔ پاکستان کی پارلیمینٹ نے واشنگٹن سے اس فضائی آپریشن پر معذرت کا بھی مطالبہ کیا ہے جس میں افغانستان کی سرحد پر غلطی سے پاکستانی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔
پاکستان کی پارلیمنٹ نے یہ مطالبات متفقہ طور پر گذشتہ ہفتے ایک قرار داد میں منظور کیے جس پر عمل کرنا حکومت کے لیے لازمی نہیں ہے۔
جنوبی ایشیا کے لیے محکمہ ٔ خارجہ کی سابق ڈپٹی اسسٹنٹ سکریٹری ٹریسٹا سکافر نے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ پارلیمینٹ نے جو عام طور سے سرگرمی کامظاہرہ نہیں کرتی، قومی سلامتی کے اتنے حساس مسئلے میں اتنی سرگرمی سے دخل دیا ہے ۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ حکومت اور فوج دونوں یہی چاہتی تھیں۔
’’اس قسم کے خارجہ پالیسی کے معاملے میں پارلیمنٹ کے فیصلہ کرنے کی پاکستان میں کوئی روایت نہیں ہے ۔ پارلیمنٹ سے اس قسم کی کارروائی کے لیے اس لیے کہا گیا تھا کہ حکومت، اور شاید اس سے بھی زیادہ، فوج چاہتی تھی کہ اس کے پاس اپنے موقف کے لیے جواز موجود ہو۔ انھوں نے کچھ ہی فیصلہ کیوں نہ کیا ہو، وہ سیاسی طور پر اپنے آپ کو مضبوط کرنا چاہتے تھے ۔ اور میرے خیال میں، ان دونوں میں سے کسی کوبھی پارلیمنٹ کے سخت موقف اختیار کرنے پر اعتراض نہیں تھا۔‘‘
امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات کئی مہینوں سے خراب ہو رہے ہیں۔ نومبر میں جب امریکی جنگی جہازوں نے غلطی سے ایک پاکستانی چوکی پر حملہ کیا اور 24 پاکستانی سپاہی ہلاک کر دیے، تو تعلقات انتہائی خراب ہو گئے ۔ اس کے جواب میں، حکومتِ پاکستان نے پاکستان کے زمینی راستے سے افغانستان میں امریکی فوجوں کو سازو سامان بھیجنے کی ممانعت کردی۔
اسلام آباد سامان بھیجنے کے ان راستوں کو دوبارہ کھول سکتا ہے، جنہیں اسلحہ اور گولہ بارود کی ترسیل کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا، اگر نئے مطالبات کے بارے میں واشنگٹن کے ساتھ اس کا سمجھوتہ ہو جائے۔
لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ افغانستان سامان بھیجنے کے لیے امریکہ کو پاکستان کے زمینی راستے لازمی طور پر نہیں چاہئیں۔ جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں جنوبی ایشیا کی ماہر کرسٹین فیئر کہتی ہیں کہ امریکہ اور نیٹو نے زمینی راستوں کے بغیر کام چلانا سیکھ لیا ہے۔
’’ہم اب یہ سامان ہوائی جہازوں سے بھیج رہے ہیں اور اس کے لیے ہمیں زیادہ قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے ۔ لیکن اس کے باوجود، ہمیں یہ فکر نہیں ہے کہ یہ سامان راستے میں روک لیا جائے گا یا اس کی چوری ہو جائے گی۔ ہمیں زیادہ پیسے دینے پڑ رہے ہیں، لیکن ہمیں وہی کچھ مل رہا ہے جس کی ہم ادائیگی کر رہےہیں ۔ لہٰذا ، امریکہ کے لیے بڑا مسئلہ ڈرونز کا ہو گا۔‘‘
پاکستان نے بار بار کہا ہے کہ اس کے علاقے میں مشتبہ طالبان کی پناہ گاہوں پر امریکی ڈرونز کے حملے بند کیے جائیں ۔ لیکن حملے جاری ہیں کیوں کہ سرکاری عہدے دار انہیں دہشت گردی کے انسداد میں اہم ہتھیار سمجھتے ہیں ۔ بعض تجزیہ کاروں نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ شاید صدر آصف علی زرداری کی حکومت نے خفیہ طور سے ان حملوں کی منظوری دے رکھی ہے، لیکن اس کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا ہے ۔
انٹیلی جنس کی کارروائیاں خفیہ ہوتی ہیں لیکن اکثر خفیہ سمجھوتوں کے ذریعے خاموشی سے ان کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ ٹریسیٹا سکافر کہتی ہیں کہ پارلیمینٹ پر یہ دباؤ ڈال کر کہ وہ سخت مطالبات کرے، ہو سکتا ہے کہ صدر زرداری اور ان کی پاکستان پیپلز پارٹی کو کچھ سیاسی فائدہ حاصل ہوا ہو، لیکن اگر امریکہ اور پاکستان کے درمیان کوئی خفیہ سمجھوتے منظرِ عام پر آئے تو حکومت کو سخت نقصان پہنچ سکتا ہے ۔
’’آپ نے یہ بات نوٹ کی ہوگی کہ پارلیمنٹ نے صرف یہ نہیں کہا کہ اب ڈرونز کے حملے نہیں ہونے چاہئیں، بلکہ اپنی قرار داد میں یہ وضاحت بھی کر دی کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کے بارے میں کوئی خفیہ یا زبانی سمجھوتے نہیں ہو سکتے اور اگر کوئی سمجھوتے پہلے کبھی ہوئے ہیں، وہ اب منسوخ کیے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ماضی میں ہم محض مصافحہ کرنے پر جن سمجھوتو ں پر عمل کرتے رہے ہیں، ان کے افشاء ہونے پر اب بہت بڑا اسکینڈل بن سکتا ہے ۔‘‘
کرسٹین فیئر کہتی ہیں کہ قومی سلامتی کے معاملات میں پارلیمینٹ کی دلچسپی کا خیر مقدم کیا جانا چاہیئے ۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان سیکورٹی کے تعلقات کی صورت کیا ہوگی، اس کا فیصلہ پارلیمینٹ یا سویلین حکومت نہیں بلکہ فوج کرے گی۔
’’میں سمجھتی ہوں کہ ان معاملات میں پارلیمنٹ کو شامل کرنا بنیادی طور سے اچھی بات ہے ۔ اس سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ قومی سیکورٹی کے معاملات میں پاکستان کی آبادی کو بھی شامل کیا جا رہا ہے ۔ میرے خیال میں آج تک پاکستان کے لوگوں نے قومی سلامتی کے مسائل میں اس حد تک اتنی دلچسپی کبھی نہیں لی ہے ۔ لیکن بالآخر ، فوج ہی یہ طے کرے گی کہ پارلیمینٹ جو کچھ کہتی ہے، اس میں سے کس حد تک عمل در آمد کیا جائے گا۔‘‘
امریکی عہدے داروں نے کہا کہ وہ پاکستانی پارلیمینٹ کے مطالبات کے بارے میں حکومت پاکستان کے ساتھ بات چیت کے منتظر ہیں تا کہ باہم مفاہمت کی بنیاد پر تعمیری تعلقات کو فروغ دیا جا سکے ۔