دو ہفتوں کے بعد سال 2017ء بھی مکمل ہونے جا رہا ہے اور ماضی کے کئی برسوں کی طرح یہ برس بھی پاکستان میں "منحرف" اور تنقیدی آوازوں کے لیے کچھ اچھا ثابت نہیں ہوا۔
پہلے مہینے کے پہلے ہی ہفتے میں اسلام آباد سمیت مختلف شہروں سے چار ایسی آوازیں اچانک لاپتا ہو گئیں کہ جن کی بازیابی کے لیے مقامی و بین الاقوامی سطح سے آوازیں آنا شروع ہوئیں۔
یہ "لاپتا" افراد خاص طور پر سوشل میڈیا پر مذہبی و مسلکی منافرت کے خلاف اور ریاستی اداروں کے کردار پر نکتہ چینی میں سرگرم تھے۔
جن پراسرار حالات میں یہ لاپتا ہوئے ایسے ہی پراسرار طور پر مختلف اوقات میں اپنے گھروں کو واپس لوٹ آئے جن میں سے دو نے تو اپنی جان کو لاحق خطرات کے پیش نظر فوراً پاکستان چھوڑ جانے میں ہی عافیت جانی۔
سال کے مختلف اوقات میں اکثر و بیشتر ایسی خبریں سامنے آتی رہیں کہ جن میں کسی کارکن کے لاپتا ہونے یا پھر ہراساں کیے جانے کا بتایا جاتا رہا۔
انسانی اور سماجی حقوق کے سرگرم کارکنان ایسے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہتے آ رہے ہیں کہ پاکستان میں آزادیٔ اظہار کے لیے فضا سکڑتی جا رہی ہے۔
سال کے اس آخری مہینے کی دو تاریخ کو لاہور سے رضا خان اچانک لاپتا ہوگئے جن کے گھر والوں نے ایک نامعلوم شخص کی طرف سے انھیں اغوا کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے پولیس کو آگاہ کر دیا۔
رضا خان پاکستان اور بھارت کے عوام کے درمیان دوستانہ تعلقات کے لیے سرگرم ایک غیر سرکاری تنظیم "آغاز ِدوستی" سے وابستہ تھے اور ملک میں سماجی نا انصافی کے خلاف بھی آواز بلند کرتے آ رہے تھے۔
انسانی حقوق کے ایک اور سرگرم کارکن جبران ناصر کہتے ہیں کہ سماجی کارکنان کے لیے تو صورتِ حال ہمیشہ سے مشکل ہی رہی ہے لیکن رواں برس ایک اور پہلو بھی سامنے آیا جس سے ایسی آوازوں کے لیے اپنی سرگرمیاں جاری رکھنا مزید خطرناک ہو گیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ جبری گمشدگی سے زیادہ خطرناک بات ان کے نزدیک کسی شخص کی حب الوطنی یا عقیدے سے متعلق منفی بات نتھی کر دینا ہے۔
"ہم نے ہر موضوع پر کسی کا نکتۂ نظر جاننے کے بعد اس کی مسلمانیت پر، پاکستانیت پر، حب الوطنی پر یا عقیدے پر جو سوال اٹھانا شروع کر دیے ہیں، لوگوں کو بوکس کرنا شروع کر دیا ہے، لیبل لگانا شروع کر دیے ہیں، تو جو لوگ پاکستان میں موجود ہیں اور وہ جبری گمشدگی کا شکار نہیں بھی ہوئے ان کے لیے یہاں رہنا مشکل کر دیا گیا ہے اور اسی لیے کچھ لوگ جو جبری گمشدگی سے واپس آتے ہیں جب کہ ان پر خود ظلم ہوا ہوتا ہے وہ اتنے بدنام ہو چکے ہوتے ہیں کہ وہ خود پاکستان سے کوچ کر جاتے ہیں۔"
انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن کے خیال میں اس صورتِ حال کے جلد بہتر ہونے کی توقع نہیں ہے اور اس کی وجہ ان کے بقول قانون کی بالادستی کا نہ ہونا ہے۔
"قانون کی حکمرانی نہیں ہے ہمارے ہاں۔ حکومت بہت کمزور ہے۔ اس وقت اس کی عمل داری نہیں ہے۔ جس کا جو جی چاہتا ہے وہ کرتا ہے۔ جو ادارے ہیں وہ اپنی مرضی کر رہے ہیں۔"
جبری گمشدگیوں کا معاملہ ایک عرصے سے سوالیہ نشان کی صورت کھڑا ہے اور اکثر واقعات میں ان کا الزام سکیورٹی اداروں پر عائد کیا جاتا ہے لیکن ان اداروں کے حکام اسے مسترد کرتے ہیں۔
جبران ناصر کا کہنا ہے کہ جبری گمشدگی خود اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ لاپتا ہونے والے شخص نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا۔
"کیونکہ اگر اس نے قانون توڑا ہوتا تو آپ اس کے خلاف چارج شیٹ بنا کر عدالت کے سامنے پیش کر دیتے۔۔۔ جب آپ اسے عدالت نہیں لے کر جاتے، کوئی چالان پیش نہیں کرتے اور اس کے خلاف کوئی ثبوت نہیں لاتے، صرف غائب ہی کر دیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے اس نے کوئی قانون نہیں توڑا۔ اس نے بس آپ کے موڈ کے خلاف کام کیا ہے جو آپ کو ناگوار گزرا ہے لیکن وہ قانونی اور آئینی چیز تھی۔"
2011ء میں حکومت نے جبری گمشدگیوں سے متعلق ایک کمیشن بھی قائم کیا تھا جس کے مطابق اب تک سامنے آنے والے کیسز میں سے اکثریت کو حل کیا جا چکا ہے۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت بھی اس بارے میں مختلف مقدمات کی شنوائی کے دوران حکام کو لاپتا افراد سے متعلق معلومات فراہم کرنے کی ہدایت کر چکی ہے۔