سیاسی تجزیہ کار کامران بخاری نے کہا ہے کہ افغانستان کے حوالے سے جس ہمسایہ ملک کا ذکر کم ہو رہا ہے وہ ہے ایران، جس کا اثر و رسوخ، اُن کے بقول، اتنا ہی ہے جتنا کہ پاکستان کا، صرف فرق ’ایکٹر‘ کا ہے۔
اُنھوں نے یہ بات پیر کو’وائس آف امریکہ‘ کے حالاتِ حاضرہ کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہی، جس کےحصہ لینے والے دوسرے تجزیہ کار ڈاکٹر فرخ سلیم تھے۔
کامران بخاری سے صدر کرزئی کےمنگل سے شروع ہونے والے دورہٴ بھارت اوراس سے قبل دیے گئےپاکستان کے خلاف سخت بیانات کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ ’کابل کی پوزیشن کو سمجھنے کی ضرورت ہے، جو کہ إِِس وقت سب سے نازک ہے، کیونکہ افغانستان کو بہت سے پریشرز کا سامنا ہے۔۔۔ اُن کو یہ بھی دیکھنا ہے کہ بھارت کیا کہہ رہا ہے۔ پاکستان کے خلاف وہ بات ضرور کرتے ہیں، لیکن اُن کو پتا ہے کہ پاکستان کو وہ بالکل نظرانداز نہیں کرسکتے‘۔
اُن کے الفاظ میں: ’سب سے اہم کردار جس کا ذکر بہت کم ہو رہا ہے وہ ہے وہ ایران ہے، جس کا اثرورسوخ اتنا ہی ہے جتنا کہ پاکستان کا۔ صرف فرق ایکٹر کا ہے۔ پاکستان کا اثرو رسوخ پشتون کے اندر ہے، بالخصوص طالبان کےپاس اور ایران کا اثر و رسوخ اُن تمام قوتوں کے ساتھ ہے جو پشتون کے خلاف اتحاد میں شامل ہوجاتے ہیں، جب بھی کوئی ایسی صورتِ حال سامنے آتی ہے‘۔
حقانی نیٹ ورک کے بارے میں سوال پر، ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہا کہ اِس معاملے پر اِس وقت پاکستان اور امریکہ کے درمیان جو تناؤ کی کیفیت ہے وہ ایک حقیقت ہے۔ اُن کے بقول، ’امریکہ کے سامنے اس وقت بہت بڑا چیلنج ہے۔ امریکہ کا عوام چاہتا ہے کہ امریکہ جلد از جلد اپنی فوجیں افغانستان سے واپس بلالے، اور شاید، امریکی جنرل جس پالیسی پر اڑے ہوئے ہیں وہ یہ ہے کہ پاکستان کو کس طرح استعمال کرکے حقانی گروپ کو بھی مذاکرات کی میز پر لایا جائے، اور ایسی صورت حال ہو جس میں ’پوزیشن آف اسٹرینگتھ‘ امریکہ کے پاس ہو۔‘
اُنھوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ اِس تناظر میں پاکستان اور امریکہ کے مفادات متفرق ہونے لگے ہیں۔
تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ سنیئے: