افغانستان میں 10سال سےجاری جنگ ابھی تک اپنے منطقی انجام کو پہنچتی نظر نہیں آرہی ، جب کہ تجزیہ کاروں میں ابھی تک اِس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ افغانستان میں پائیدار امن کے لیے حکمتِ عملی کیا ہونی چاہیئے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ امن مذاکرات کی کوششوں کے ساتھ ہی طاقت کا استعمال ناگزیر ہے، جب کہ دوسرے تجزیہ کار یہ کہتے ہیں کہ امن کا مقصد فوجی طاقت سے نہیں بلکہ امن مذاکرات کے لیے جاری کوششوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
ہم سب کے علم میں ہے کہ 11ستمبر 2001ء میں القاعدہ کی جانب سے نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور واشنگٹن میں پینٹگان پر حملوں کے بعد، امریکہ اور اُس کے اتحادیوں نے افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا جو تاحال جاری ہے۔
دہشت گردی کے خلاف دس برس سےجاری اِس جنگ میں ہزاروں فوجی ہلاکتوں کے علاوہ عام شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد پونے دو لاکھ بتائی جاتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اِسی جنگ نے 50لاکھ سے زیادہ افراد کوپناہ گزیں بننے پر مجبور کیا اور اربوں ڈالر کے اخراجات کے علاوہ بنیادی ڈھانچے اور معیشت کو بھی بھاری نقصان پہنچا ہے۔
تاہم، گذشتہ دس برسوں میں بڑے پیمانے پر جانی اور مالی قربانیوں سے قطع نظر تجزیہ کارو کے مطابق افغانستان کے سماجی شعبے میں کافی ترقی بھی ہوئی ہے۔
’سائنس اکیڈمی آف افغانستان ‘سے منسلک ڈاکٹر حیات اللہ دہانی نے 2001ء سے پہلے کے افغانستان کا موازنہ آج کے افغانستان سے کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے تعلیمی شعبے، ذرائع آمد رفت، ٹیلی کمیونیکیشن اور سرمایہ کاری کے شعبے میں ترقی ہوئی ہے بلکہ ملک کے ادارے بھی مضبوط ہوئے ہیں اور وہ خواتین جو طالبان کے دورِ حکومت میں بنیادی حقوق سے محروم تھیں، آج اُنھیں تعلیم حاصل کرنے اور مختلف شعبوں میں کام کرنے کی آزادی ہے۔
ڈاکٹر حیات اللہ نے مزار شریف سے کابل، کابل سے قندھار، قندھار سے ہرات اور دوسری جانب کابل سے جلال آباد اور جلال آباد سے طورخم تک کے روڈ نیٹ ورک کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 2001ء سے پہلے کی ایک ہزار کلومیٹر لمبی سڑکیں اب نو ہزار کلومیٹر لمبی سڑکوں میں بدل چکی ہیں۔ اُن کے مطابق، ساڑھے چھ ملین سے زائد بچے اسکول جارہے ہیں جو 2001ء سے پہلے کے مقابلے میں ایک بڑی تعداد ہے۔ کابل کے علاوہ ملک کے دیگرحصوں میں بھی یونیورسٹیاں قائم کی جارہی ہیں۔
دوسری جانب، پاکستان سے دفاعی تجزیہ کار ریٹائرڈ جنرل عبد القیوم کا کہنا تھا کہ سماجی شعبے میں پیش رفت کے باوجود، دس برس گزرنے کے بعد کے افغانستان کے حالات گھمبیر ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ مختلف شعبوں میں اِس ترقی کی قیمت نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان نے بھی بڑے پیمانے پر ادا کی ہے اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔
پاکستان کے سابق سفارتکار اور بین الاقوامی امور کے ماہر ظفر حلالی کا کہنا تھا کہ علاقے میں اُس وقت تک امن کا قیام ممکن نہیں ہے جب تک کہ بیرونی افواج مکمل طور پر افغانستان چھوڑ نہ جائیں۔
جنرل (ر) عبد القیوم کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغان جنگ کا پُرامن حل، فوجی طاقت سے نہیں بلکہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے کوششوں کو جاری رکھ کر تلاش کیا جاسکتا ہے، جب کہ افغان تجزیہ کار ڈاکٹر حیات اللہ کےمطابق علاقے میں قیام ِامن کے لیے امن مذاکرات کے لیے کوششوں کے ساتھ ساتھ فوجی طاقت کا استعمال ناگزیر ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: