افغانستان و پاکستان کےمنتخب عوامی نمائندوں کے درمیان کابل میں ہونےوالی غیر رسمی بات چیت میں دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کوششوں، تجارتی روابط کے فروغ اور تجارتی راہ داری پر تبادلہٴ خیال ہوا۔ اپنی نوعیت کے اِس دوسرے اجلاس کو متعدد تجزیہ کاروں نے سراہا ہے۔
’وائس آف امریکہ‘ کے سوال پر کہ کیا دونوں ملکوں کے قانون سازوں کی غیر رسمی ملاقات سے خطے میں پائیدار امن قائم ہونے میں مدد مل سکتی ہے، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور سابق سفیر جنرل (ر) محمود علی درانی کا کہنا تھا کہ یہ ملاقات سودمند رابطوں کی ’ایک کڑی تھی‘ جو کہ ایک اچھی پیش رفت ہے۔
محمود علی درانی کا کہنا تھا کہ ایسی ملاقاتیں ایک دوسرے کی رائےجاننے کےحوالے سےقربت کا باعث بنیں گی۔ اُنھوں نے کہا کہ تعلقات میں بہتری لانے کے لیے کئی ایسے’اِنی شئیٹو‘ درکار ہوں گے۔
اُن کے بقول، اِسی طرح کی ملاقاتیں دونوں ملکوں کے دانشوروں کے درمیان اورعام لوگوں کی سطح پر ہونی چاہئیں، جس کا یقیناً خطے کو فائدہ ہوگا۔
اِسی سال جولائی میں امریکہ افغانستان میں سکیورٹی ذمہ داریاں افغان فورسز کے حوالے کردے گا۔ اِس سوال پر کہ اُس کے بعد کا منظرنامہ کیا ہوگا، پاکستان کے سابق سفیر نذر عباس کا کہنا تھا کہ اِس میں کافی ’اِفز‘ اور ’بٹز‘ ہیں، کیونکہ عام طور پر تاثر یہی ہے کہ باوجود اس بات کے کہ کافی عرصے سے امریکہ افغان فورسز کو تربیت دے رہا ہے لیکن ابھی تک افغان فوج، پولیس اور قانون کا نفاذ کرنے والے اہل کار اِس قابل نہیں ہوئے کہ وہ اپنے طور پر ذمہ داریاں سنبھال سکیں۔
افغانستان کے مجموعی حالات کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ کابل کی حد تک تو معاملہ ٹھیک ہے، لیکن ، اُن کے بقول، باقی ملک کے جو حالات ہیں افغان فوج اُن کا کنٹرول نہیں سنبھال سکتی۔
افغان فورسز کو ذمہ داریاں سونپے جانے سے مرتب ہونے والے اثرات کے بارے میں ایک سوال پر جنرل(ر) درانی کا کہنا تھا کہ کسی بھی ملک کےباشندوں کو خود ہی اپنی سکیورٹی اور ملکی نظام اور باقی کاموں کی ذمہ داری سنبھالنی چاہیئے، جودراصل اُن کا فرض ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ سوچ کی حد تک تو بہتراثرات مرتب ہو گا، لیکن، بقول اُن کے، یہ ہوگا کہ نہیں یہ اُن کی تربیت اور کارکردگی پر منحصر ہے۔
تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ سنیئے: