وزیر مملکت برائے اُمور خارجہ ملک عماد خان نے کہا ہے کہ ا فغانستان میں جنگ کے خاتمے اور سیاسی مفاہمت کے عمل میں اُن کا ملک اپنا جائزکردار ادا کرنے کو تیار ہے لیکن پاکستان کے پاس ” کوئی جادو نہیں ہے“ کہ وہ تما م طالبان یا دوسری عسکری تنظیموں کو تشددکی راہ چھوڑنے اور امن مذاکرات پر آمادہ کرسکے ۔
افغان صدر حامد کرزئی نے حال ہی میں یہ اعتراف کیا ہے کہ اُن کی حکومت نے جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان عسکریت پسندوں کے ساتھ خفیہ طور پر ابتدائی رابطے کیے ہیں جبکہ نیٹو افواج نے بھی اس بات چیت میں کردار ادا کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
پاکستانی قیادت نے اس پیش رفت کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں مصالحت کی کوششیں اُس کی شمولیت کے بغیر کامیا ب نہیں ہوں گی۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے اس بیان نے مغربی حلقوں میں اس تاثر کو تقویت دی ہے کہ طالبان کے ساتھ پُرانے تعلقات استعمال کرکے پاکستان افغان باغیوں کو مذاکرات کی میز پر لاسکتا ہے۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں وزیر مملکت عماد خان نے پاکستانی موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مصالحتی کوششوں میں افغانوں کی مدد کرنے کا مطلب صرف طالبان کومذاکرات کے لیے راضی کرنا نہیں بلکہ افغانستان میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو، سرکاری اداروں بشمول فوج اور وزارت خارجہ کی استعداد بڑھانا اور اُن کی تربیت شامل ہے۔ ” اگر کوئی سیاسی گروپ آپ کے زیر اثرہے تو آپ مصالحت کی کوششوں میں کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ مگر یہ کہنا مناسب نہیں ہوگا کہ( افغانستان میں) ہر کوئی آپ کے کنٹرول میں ہے خواہ وہ طالبان ہوں،دہشت گرد یا پھر ناپسندیدہ عناصر ۔“
اُنھوں نے پاکستان کے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ کوئی مغربی یا بیرونی حکمت عملی افغان مسئلے کا حل نہیں اس لیے ضرور ی ہے کہ سیاسی مفاہمت کی کوششوں کی قیادت خود افغانوں کو کرنے دی جائے۔ وزیر مملکت کے بقول سیاسی اور اقتصادی طور پر مستحکم افغانستان ہی دراصل پاکستان کا اسٹریٹیجک مفاد ہے۔
اسلام آباد میں سینئرافغان سفارت کار رحیم الله قطرہ نے بھی وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے تعاون کے بغیراُن کے ملک میں امن واستحکام کا قیام مشکل ہو گا۔ ” اس لیے کہ افغان عوام کی سوچ یہ ہے کہ طالبان کے بڑے کمانڈر اور قائدین افغانستان اور پاکستان کی سرحد کے آر پار نقل و حرکت اور اس علاقے میں سرگرمیاں جار ی رکھے ہوئے ہیں۔“
انھوں نے کہا کہ افغان حکومت کے طالبان کے ساتھ رابطے ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں اس لیے میڈیا کو ابھی ان کی تفصیلات سے آگا ہ نہیں کیا جا سکتا” کیونکہ اگر فریقین میں سے کوئی بھی ایسا کرے گا تو امن کے عمل کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے“۔
افغان سفارت کار نے توقع ظاہر کی ہے کہ باغیوں کے ساتھ بات چیت کے لیے صدر کرزئی نے پروفیسر برہان الدین ربانی کے سربراہی میں حال ہی میں جو امن کونسل قائم کی ہے اُس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔
انھوں نے کہا کہ کونسل کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ طالبان، حزب اسلامی حکمت یار اور حقانی گروپ سے بات چیت کرے تاکہ ان کے مطالبات کو سامنے رکھ کر مسئلے کا حل ڈھونڈ ا جائے۔ تاہم انھوں نے واضح کیا کہ القاعدہ اور اس دہشت گرد تنظیم کا ساتھ دینے والوں کے خلاف نیٹو اور افغان فوجیں اپنی جنگ جاری رکھیں گی۔
افغان اور نیٹو حکام کا ماننا ہے کہ افغانستان میں مقامی اور غیر ملکی افواج پر ہلاکت خیز حملوں میں ملوث حقانی نیٹ ورک نے شمالی وزیر ستان میں تربیت گاہیں قائم کرر کھی ہیں جنھیں سرحد پار دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان کو اس الزام کا بھی سامنا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ’بعض عناصر‘ کے ساتھ نہ صرف قریبی رابطے ہیں بلکہ وہ افغانستان میں جاری شورش میں بھی باغیوں کی مدد کررہے ہیں۔
لیکن پاکستانی وزیر مملکت عماد نے اس تنقید کو مسترد کیا ہے کہ شمالی وزیر ستان میں موجود شدت پسندوں کو پاکستان نے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ ”اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ شمالی وزیرستان میں کچھ ہو ہی نہیں رہایا ادھر کسی کو بالکل ہی آپ نے ڈھیل دی ہوئی ہے یا وہاں فوج کا ایک سپاہی بھی نہیں ہے تو یہ بات تو غلط ہے۔بہت ساری فوج پہلے سے وہاں موجود ہے اور فوجی حکمت عملی کے تحت جو کارروائی ممکن ہے وہ کی جارہی ہے۔ “
انھوں نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں اس وقت 34 ہزار فوجی تعینات ہیں اور وہاں پر کی جانے والی ہر کارروائی پاکستان اپنی استعداد اور ترجیحات کو سامنے رکھ کرکرے گا۔