افغان دارالحکومت کابل میں کھیلے گئے میچ میں میزبان ٹیم نے پاکستان کو تین ۔ صفر سے شکست دی۔
اسلام آباد —
پاکستان کی فٹ بال ٹیم نے 36 سال کے بعد افغانستان کے خلاف کابل میں میچ کھیلا۔
اس دوستانہ میچ میں افغانستان کی ٹیم نے تین گول کیے تاہم پاکستانی فٹبال ٹیم کوئی گول نا کر سکی۔
اس میچ کو دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان حالیہ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ایک اچھا شگون قرار دیا جا رہا ہے۔
دونوں ممالک ماضی میں ایک دوسرے کے ہاں کھیلوں کے مقابلوں میں شرکت کیا کرتے تھے لیکن سابق سوویت یونین کی طرف سے افغانستان پر حملے اور اس کے بعد طالبان کے دور حکومت اور ملک میں ہونے والی خانہ جنگی کی وجہ سے پاکستانی ٹیم افغانستان نہیں گئی تھی۔
پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری احمد یار خان لودھی نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ اس میچ کے مقاصد میں جہاں آنے والے فٹ بال مقابلوں کی تیاری کرنا شامل تھا وہیں یہ دنوں ملکوں کے درمیان دوستانہ روابط میں بہتری کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش بھی ہے۔
’’ایک تو یہ تھا کہ سیف گیمز کی تیاری ہوگی دوسرا یہ کہ جب دو ملکوں کی ٹیمیں آپس میں کھیلیں گی تو عوامی سطح پر رابطوں میں اضافے سے برادرانہ تعلقات بھی بہتر ہوتے ہیں۔‘‘
افغانستان نے آخری مرتبہ 2003ء میں فٹ بال میچ کی میزبانی کی تھی جس میں ترکمانستان کی ٹیم نے کابل کا دورہ کیا تھا۔
افغانستان میں سلامتی کیے خراب صورتحال کے تناظر میں پاکستانی ٹیم کو وہاں بھیجنے کے فیصلے پر احمد یار خان کا کہنا تھا کہ فٹ بال کی عالمی تنظیم اور پاکستان فٹ بال فیڈریشن کی گورننگ باڈیز تبھی میچ کی اجازت دیتی ہیں جب میزبان فٹ بال فیڈریشن فول پروف سکیورٹی کی یقین دہانی کرائے۔
’’میں نے پاکستانی سفارتخانے سے بات کی تھی انھوں نے بھی کہا تھا کہ مکمل سکیورٹی فراہم کی جائے گی ٹیم کو۔ ہم جس ماحول میں رہ رہے ہیں میرا نہیں خیال کہ ہمیں ڈرنا چاہیئے۔‘‘
افغانستان کی ٹیم فٹ بال کی عالمی درجہ بندی میں 139 ویں جب کہ پاکستان 167 ویں نمبر پر ہے۔
پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری نے اس کھیل پر حکومتی عدم توجہی کا شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس ضمن میں سرکاری سرپرستی شامل حال ہو تو پاکستان اس کھیل میں دنیا میں ملک کا نام روشن کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔
اس دوستانہ میچ میں افغانستان کی ٹیم نے تین گول کیے تاہم پاکستانی فٹبال ٹیم کوئی گول نا کر سکی۔
اس میچ کو دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان حالیہ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ایک اچھا شگون قرار دیا جا رہا ہے۔
دونوں ممالک ماضی میں ایک دوسرے کے ہاں کھیلوں کے مقابلوں میں شرکت کیا کرتے تھے لیکن سابق سوویت یونین کی طرف سے افغانستان پر حملے اور اس کے بعد طالبان کے دور حکومت اور ملک میں ہونے والی خانہ جنگی کی وجہ سے پاکستانی ٹیم افغانستان نہیں گئی تھی۔
پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری احمد یار خان لودھی نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ اس میچ کے مقاصد میں جہاں آنے والے فٹ بال مقابلوں کی تیاری کرنا شامل تھا وہیں یہ دنوں ملکوں کے درمیان دوستانہ روابط میں بہتری کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش بھی ہے۔
’’ایک تو یہ تھا کہ سیف گیمز کی تیاری ہوگی دوسرا یہ کہ جب دو ملکوں کی ٹیمیں آپس میں کھیلیں گی تو عوامی سطح پر رابطوں میں اضافے سے برادرانہ تعلقات بھی بہتر ہوتے ہیں۔‘‘
افغانستان نے آخری مرتبہ 2003ء میں فٹ بال میچ کی میزبانی کی تھی جس میں ترکمانستان کی ٹیم نے کابل کا دورہ کیا تھا۔
افغانستان میں سلامتی کیے خراب صورتحال کے تناظر میں پاکستانی ٹیم کو وہاں بھیجنے کے فیصلے پر احمد یار خان کا کہنا تھا کہ فٹ بال کی عالمی تنظیم اور پاکستان فٹ بال فیڈریشن کی گورننگ باڈیز تبھی میچ کی اجازت دیتی ہیں جب میزبان فٹ بال فیڈریشن فول پروف سکیورٹی کی یقین دہانی کرائے۔
’’میں نے پاکستانی سفارتخانے سے بات کی تھی انھوں نے بھی کہا تھا کہ مکمل سکیورٹی فراہم کی جائے گی ٹیم کو۔ ہم جس ماحول میں رہ رہے ہیں میرا نہیں خیال کہ ہمیں ڈرنا چاہیئے۔‘‘
افغانستان کی ٹیم فٹ بال کی عالمی درجہ بندی میں 139 ویں جب کہ پاکستان 167 ویں نمبر پر ہے۔
پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری نے اس کھیل پر حکومتی عدم توجہی کا شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس ضمن میں سرکاری سرپرستی شامل حال ہو تو پاکستان اس کھیل میں دنیا میں ملک کا نام روشن کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔