بات چیت طالبان اور دیگر شدت پسند گروپوں کی طرف سے لڑائی بند کرنے اور امن مذاکرات میں شریک ہونےکی حوصلہ افزائی پرمرکوز رہی
اسلام آباد —
پاکستان اور افغانستان نے طالبان کی قیادت میں سرگرم باغی گروپوں سےمشترکہ اپیل کی ہے کہ وہ جنگ کے خاتمے کے لیے افغان سیاسی مفاہمتی عمل میں شریک ہوں۔
دونوں ملکوں نے شدت پسندوں سے مطالبہ کیا کہ وہ القاعدہ اور دیگر بین الاقوامی دہشت گرد نیٹ ورکس کے ساتھ تعلق منقطع کریں۔
افغانستان کی اعلیٰ امن کونسل کا سہ روزہ اجلاس اسلام آباد میں اختتام پذیر ہوا، جس میں افغانستان کے اعلیٰ سطحی وفد کی قیادت کونسل کے سربراہ صلاح الدین ربانی نے کی، جس دوران وفد نے پاکستان کے سیاسی اور فوجی قائدین کے ساتھ بھرپور مذاکرات جاری رکھے۔
بات چیت طالبان اور دیگر شدت پسند گروپوں کی طرف سے لڑائی بند کرنے اور امن مذاکرات میں شریک ہونےکی حوصلہ افزائی پر مرکوز رہی۔
دونوں، پاکستان اور افغانستان کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، جس میں پاکستان کی طرف سے متعدد طالبان قیدیوں کی رہائی کا معاملہ بھی شامل ہے۔
طویل عرصے سے حکومت افغانستان اِن افراد کی رہائی کا مطالبہ کرتی رہی ہے، اور اُس نے اِس امید کا اظہار کیا کہ اِن لوگوں کی افغانستان میں بحالی کے نتیجے میں دیگر شدت پسندوں کو دہشت گردی کی کارروائیاں بند کرنے اور امن عمل میں شریک ہونے کی حوصلہ افزائی ہوگی۔
افغان وفد کے ایک سینئر رکن عبد الحمید مبُاریز نے پاکستان کی طرف سے طالبان قیدیوں کی رہائی کو ایک اہم قدم قرار دیا۔
اعلیٰ امن کونسل کے چیرمین ربانی نے اِس اعتماد کا اظہار کیا کہ پاکستان اور افغانستان کی طرف سے ایکساتھ کام کرنے کے نتیجے میں اُن کے ملک میں استحکام کے حصول میں مدد ملے گی۔
ربانی کے بقول،’ ہم دونوں ملکوں کے مابین قریبی تعاون کےخواہاں ہیں، کیونکہ افغانستان میں امن کا مطلب پاکستان میں امن ہے۔ اور یہ کہ ہمیں پورا یقین ہے کہ افغانستان میں امن اور استحکام کے حصول کے لیے ہم تعاون اور قریبی روابط جاری رکھیں گے‘۔
پاکستان کے وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے اِس بات کا اعادہ کیا کہ اُن کا ملک افغان امن کی کوششوں کی حمایت جاری رکھے گا۔
اُن کے الفاظ میں، ’ہمیں پورا یقین ہے کہ پُرامن افغانستان کا مطلب، پُرامن پاکستان ہے۔ پاکستان کسی بھی امن عمل اور مکالمے کی حمایت جاری رکھے گا‘۔
مذاکرات کے اختتام پر جاری ہونے والے ایک مشترکہ بیان میں دونوں ملکوں نے طالبان اور دیگر ہتھیار بند گروپوں سے القاعدہ اور دیگر دہشت گرد نیٹ ورکس سے ناطے توڑنے کا مطالبہ کیا۔
دونوں ملکوں نے شدت پسندوں سے مطالبہ کیا کہ وہ القاعدہ اور دیگر بین الاقوامی دہشت گرد نیٹ ورکس کے ساتھ تعلق منقطع کریں۔
افغانستان کی اعلیٰ امن کونسل کا سہ روزہ اجلاس اسلام آباد میں اختتام پذیر ہوا، جس میں افغانستان کے اعلیٰ سطحی وفد کی قیادت کونسل کے سربراہ صلاح الدین ربانی نے کی، جس دوران وفد نے پاکستان کے سیاسی اور فوجی قائدین کے ساتھ بھرپور مذاکرات جاری رکھے۔
بات چیت طالبان اور دیگر شدت پسند گروپوں کی طرف سے لڑائی بند کرنے اور امن مذاکرات میں شریک ہونےکی حوصلہ افزائی پر مرکوز رہی۔
دونوں، پاکستان اور افغانستان کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، جس میں پاکستان کی طرف سے متعدد طالبان قیدیوں کی رہائی کا معاملہ بھی شامل ہے۔
طویل عرصے سے حکومت افغانستان اِن افراد کی رہائی کا مطالبہ کرتی رہی ہے، اور اُس نے اِس امید کا اظہار کیا کہ اِن لوگوں کی افغانستان میں بحالی کے نتیجے میں دیگر شدت پسندوں کو دہشت گردی کی کارروائیاں بند کرنے اور امن عمل میں شریک ہونے کی حوصلہ افزائی ہوگی۔
افغان وفد کے ایک سینئر رکن عبد الحمید مبُاریز نے پاکستان کی طرف سے طالبان قیدیوں کی رہائی کو ایک اہم قدم قرار دیا۔
اعلیٰ امن کونسل کے چیرمین ربانی نے اِس اعتماد کا اظہار کیا کہ پاکستان اور افغانستان کی طرف سے ایکساتھ کام کرنے کے نتیجے میں اُن کے ملک میں استحکام کے حصول میں مدد ملے گی۔
ربانی کے بقول،’ ہم دونوں ملکوں کے مابین قریبی تعاون کےخواہاں ہیں، کیونکہ افغانستان میں امن کا مطلب پاکستان میں امن ہے۔ اور یہ کہ ہمیں پورا یقین ہے کہ افغانستان میں امن اور استحکام کے حصول کے لیے ہم تعاون اور قریبی روابط جاری رکھیں گے‘۔
پاکستان کے وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے اِس بات کا اعادہ کیا کہ اُن کا ملک افغان امن کی کوششوں کی حمایت جاری رکھے گا۔
اُن کے الفاظ میں، ’ہمیں پورا یقین ہے کہ پُرامن افغانستان کا مطلب، پُرامن پاکستان ہے۔ پاکستان کسی بھی امن عمل اور مکالمے کی حمایت جاری رکھے گا‘۔
مذاکرات کے اختتام پر جاری ہونے والے ایک مشترکہ بیان میں دونوں ملکوں نے طالبان اور دیگر ہتھیار بند گروپوں سے القاعدہ اور دیگر دہشت گرد نیٹ ورکس سے ناطے توڑنے کا مطالبہ کیا۔