افغان حکام نے پیر کے روز پاکستان سے طورخم کی سرحدی گزرگاہ کے راستے افغانستان میں داخلے کے منتظر ان مال بردار ٹرکوں اور ٹرالوں کو ملک میں داخل ہونے سے روک دیا جن کے پاس افغان عہدے داروں کے جاری کردہ روٹ پرمٹ نہیں تھے۔
افغان حکام کے اس فیصلے کے نتیجے میں پاکستانی ٹرانسپورٹروں کے سامان سے لدھے ٹرکوں اور گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ چکی ہیں اور طورخم میں مزید پارکنگ نہ ہونے کی وجہ سے اب طورخم اور پشاور کو ملانے والی شاہراہ کے مختلف مقامات پر ٹرک اور ٹرالر کھڑے کیے جارہے ہیں۔
طورخم میں سوموار کے روز پاکستان سے افغانستان کے حدود میں داخل ہونے والے ان ٹرکوں اور ٹرالرز کو روکنے کا سلسلہ شروع ہوا جن کے پاس روٹ پرمٹ نہیں ہے۔
ضلع خیبر میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان دو طرفہ تجارت سے متعلق ٹرانسپورٹروں کی تنظیم کے صدر شاکر آفریدی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس سلسلے میں اُنہوں نے کئی بار افغان حکام سے بات کی ہے مگر فی الحال مثبت نتائج برآمد نہیں ہو سکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغان حکومت کی اس پالیسی کے نتیجے میں اب سامان سے بھرے ہزاروں ٹرکوں کو سرحد کے قریب قطاروں میں کھڑا کیا جا رہا ہے۔
شاکر آفریدی کا کہنا ہے کہ پچھلے سال جب سے وزیر اعظم عمران خان نے طورخم کی سرحدی گزرگاہ کو دو طرفہ تجارت کے لئے دن رات کھولنے کا اعلان کیا تھا، تب سے افغانستان کی جانب سے مختلف حیلوں بہانوں سے رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں جس کے دو طرفہ تجارت پر نہایت منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔
اُنہوں نے دونوں ممالک کی حکومتوں سے ٹرانسپورٹرز کو درپیش مشکلات کو حل کرنے کی اپیل کرتے ہوئے تمام رکاوٹیں دور کرنے پر زور دیا۔
خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات شوکت علی یوسفزئی نے کہا ہے کہ پاکستان کی کوشش ہے کہ افغانستان کے ساتھ دو طرفہ تجارت کو فروع ملے کیونکہ اس میں دونوں ممالک کو فائدہ ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کی کوشش ہے کہ وفاقی حکومت یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے افغانستان کے ساتھ روٹ پرمٹ کے معاملے پر رابطہ کرے۔
پچھلے کئی برسوں سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی اور سیاسی تعلقات میں کشیدگی کے باعث طورخم اور دیگر سرحدی گزرگاہوں پر دو طرفہ تجارت اور آمدورفت میں رکاوٹیں پیش آنے کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں اور دونوں ممالک کے سرحدی حکام اور ادارے ان مسائل کو حل کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں دکھائی دیئے۔
جنوری کے اوائل میں پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ صنعت و حرفت کی تنظیم کے عہدیداروں اور ارکان کا تین روزہ اجلاس کابل میں ہوا تھا، جس میں دو طرفہ تجارت کے فروغ اور پاکستان کے راستے افغانستان کی دیگر ممالک کے ساتھ تجارت کے معاہدے پر نظرثانی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ 2010 میں ہونے والے اس معاہدے کے خاتمے سے دو طرفہ تجارت میں حائل مشکلات اور رکاوٹیں حل ہونے کی توقع ہے۔