پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے درمیان قطری دارالحکومت میں ایک ہفتے تک جاری رہنے والے مذاکرات بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگئے ہیں۔ پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام کے تحت کل چھ ارب ڈالر میں سے مزید تقریباً ایک ارب ڈالر کی قسط ملنے کا معاملہ بدستور تاخیر کا شکار ہے۔
پروگرام کے تحت پاکستان پہلے ہی تین ارب ڈالرز حاصل کر چکا ہے جب کہ رواں برس ستمبر تک جاری رہنے والے اس پروگرام کے مزید تین ارب ڈالر ملنے باقی ہیں۔
وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے قطر سے وطن واپسی پر جاری اپنے بیان میں کہا کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات میں ان خساروں پر بات ہوئی جو کسی حد تک فروری میں ایندھن پر دی جانے والی سبسڈیز کی وجہ سے ہوئے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نے ایندھن اور توانائی پر دی جانے والی سبسڈیز کو واپس لینے پر زور دیا جو سابقہ حکومت کی فنڈ کے ساتھ کیے جانے والے اپنے ہی معاہدے کی خلاف ورزی تھی۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ حکومت آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی اور ملک کو پائیدار ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
دوسری جانب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا بھی کہنا ہے کہ پاکستانی حکام سے ہونے والی ان کی بات چیت تعمیری تھی اور ملک میں معاشی استحکام کے لیے اصلاحاتی ایجنڈے پر کافی حد تک کام بھی ہوا ہے۔
آئی ایم ایف نے ملک میں افراطِ زر کی بلند شرح کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے شرح سود میں مزید اضافے کے حالیہ فیصلے کو بھی سراہا تاہم مالیاتی لحاظ سے حکومتی پالیسیز میں انحراف نظر آیا ہے جس کی عکاسی فروری میں ایندھن اور توانائی پر دی جانے والی سبسڈیز سے ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ حکومت ان سبسڈیز کے خاتمے کو آئندہ بجٹ میں ممکن بنائے۔
وزارت خزانہ کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ میں پاکستان کا مالی خسارہ 2565 ارب روپے تک جاپہنچا ہے جو ملک کی مجموعی قومی آمدنی کا چار فی صد ہے۔
معاشی ماہرین کے بقول فروری میں عمران خان حکومت کی جانب سے ملک میں تیل اور توانائی کی قیمتیں عالمی مارکیٹ میں بڑھنے کے باوجود کم کرنے اور پھر انہیں چار ماہ کے لیے منجمد رکھنے کے اعلان سے خزانے پر مزید تقریباً دو ارب ڈالرز سے زائد کا بوجھ پڑے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
صرف کم آمدنی والے طبقے کے لیے سبسڈی
ماہر معاشیات ریحان عتیق کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان میں پیٹرول کئی تیل پیدا کرنے والے ممالک سے بھی سستا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ متحدہ عرب امارات تیل پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک ہے جہاں پاکستانی روپوں میں اس کی قیمت 180 روپے بنتی ہے۔ لیکن پاکستان میں پیٹرول 150 روپے میں فروخت ہورہا ہے۔
ان کے بقول سستے پیٹرول کا غیر ضروری اور غیر پیداواری استعمال زیادہ ہورہا ہے۔ حکومت امریکی ڈالرز میں تیل خرید کر اسے سستے داموں میں فروخت کررہی ہے جس سے قومی خزانے کو بھاری نقصان ہو رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق حکومت کے پاس نیشنل سوشیو اکنامک رجسٹری کے تحت ڈیٹا موجود ہے جس کے تحت غریب ترین گھرانوں کا ریکارڈ مرتب کیا گیا تھا اور اسے استعمال میں لاکر ان غریب ترین لوگوں کو براہ راست پیٹرول پر سبسڈی دی جاسکتی ہے۔
خسارے میں چلنے والے سرکاری ادارے
ریحان عتیق نے مزید کہا کہ کئی حکومتی ادارے ہر سال مجموعی طور پر کئی ہزار ارب روپے کا نقصان کررہے ہیں جن کو چلانے کے لیے حکومت انہیں ٹیکس چھوٹ سمیت معاشی پیکیج دیتی ہے۔ ایسے ادارے جن سے حکومت کو آمدنی ہونی چاہیے وہ خزانے پر سفید ہاتھی بنے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ٹیکس دہندگان کا پیسہ غیر ضروری انداز میں ضائع ہو رہا ہے۔
اُن کے بقول ایسے کئی حکومتی اداروں کی نجکاری یا پھر انہیں ری اسٹرکچر کرکے حکومت کے مالیاتی خسارے میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ جب کہ اسی ضمن میں مزید بہتری لانے کے لیے حکومت کو اپنے اخراجات محدود کرکے زیادہ سے زیادہ بچت کرنا ہوگی۔
Your browser doesn’t support HTML5
'پاکستان کو بیرونی ادائیگیوں میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے'
ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض کے حصول میں رکاوٹ کی وجہ سے پاکستان کو آنے والے چند مہینوں میں بین الاقوامی ادائیگیوں میں شدید مشکلات کا سامنا ہوگا کیونکہ پاکستان کا کرنٹ اکاونٹ خسارہ بھی رواں مالی سال میں 13.2 ارب ڈالرز کی سطح سے بڑھ چکا ہے۔
پاکستان کو آئندہ مالی سال میں 30 ارب ڈالرز کے لگ بھگ قرض اور سود کی مد بین الاقوامی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ دوسری جانب آئی ایم ایف سے مذاکرات کامیاب نہ ہونے کی صورت میں دیگر ممالک اور کئی مالیاتی ادارے بھی پاکستان کی مزید فنڈنگ سے کترا رہے ہیں۔
ادھر وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کو سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں دیے گئے انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 2019 میں ہونے والا معاہدہ موجودہ حالات سے مطابقت نہیں رکھتا۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ کرونا وبا کے پھیلاؤ، افغانستان سے امریکی انخلا اور یوکرین روس جنگ سے قبل طے پایا تھا۔ بلاول کے مطابق پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے اس صورتِ حال میں موجودہ معاہدے پر عمل درآمد کی توقع غیر حقیقی اور غیر منصفانہ ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس صورتِ حال کے پیش نظر حکومت آئی ایم ایف سے نئی شرائط کے تحت زیادہ قرضے کے حصول اور پروگرام کو جون 2023 تک توسیع دینے کے لیے مذاکرات کا بھی سوچ رہی ہے۔