پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں تناؤ ابھی ختم نہیں ہوا ہے کہ اسی دوران یہ خبریں بھی گشت کرنا شروع ہو گئی ہیں کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے سفارت کاروں کی نقل وحرکت پر پابندی عائد کرنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ دونوں ممالک نے ذرائع ابلاغ کی ان خبروں کی تصدیق نہیں کی تاہم یہ خبریں بجائے خود کوئی خوش کن تاثر پیدا نہیں کر رہیں۔
میڈیا ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان میں امریکی سفارت کاروں کو ملک کے بعض علاقوں کے سفر میں احتياط برتنے کے لئے کہا جاتا ہے۔
پاکستان کے سابق سفارت کار اور بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار ظفر ہلالی کہتے ہیں کہ ایسا سیکیورٹی کے خدشات کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے امنِ عامہ کی صورتِ حال بے حد حساس ہے۔ ہمارے 8ہزار فوجی مارے جا چکے ہیں۔70 ہزار عام شہری موت کے منہ میں جا چکے ہیں تو ہم نہیں چاہتے کہ آپ جو ہمارے مہمان ہیں آپ کو کوئی نقصان پہنچے۔ اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں پہلے اطلاع دیں۔
مُعید یُوسف یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے ایشیا سینٹر کے نائب صدر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان خبروں کو گذشتہ چند واقعات کے تناظر میں دیکھنا چاہیئے جن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی یکم جنوری کی ٹوئٹ کے بعد کے واقعات، ایف اے ٹی ای کا معاملہ اور ڈرون حملوں میں اضافہ وغیرہ شامل ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں امریکی سفارت کاروں کو جس صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ہو سکتا ہے کہ اس کی بنیاد پر امریکہ نے ایسے کسی اقدام کے بارے میں کوئی سگنل دیا ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات بے حد اہم ہیں اور کوئی بھی مسئلہ ورکنگ گروپس کے ذریعے طے کیا جا سکتا ہے۔
امریکہ میں پاکستانی سفارت کاروں کی نقل و حرکت پر کسی پابندی کے بارے میں امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ہیتھر نیورٹ نے منگل کے روز ایک پریس بریفنگ کے دوران وائس آف امریکہ کی نامہ نگا ر کے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ فی الحال ان کے پاس اس بارے میں کہنے کے لئے کچھ نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ کی اردو سروس نے امریکہ میں پاکستانی سفارت خانے سے اس بارے میں رابطہ کیا تو انہوں نے اس خبر کی ترديد نہیں کی تاہم کہا کہ وہ ابھی اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے ۔ وائس آف امریکہ کی اردو سروس سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے وزیرِ خارجہ خواجہ آصف نے بھی کہا کہ وہ اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔
مزید تفصیلات کے لیے اس لنک پر کلک کریں۔
Your browser doesn’t support HTML5