ایک مقامی رہائشی زاہد بلوچ نے بتایا کہ لوگوں نے عید کی نماز تو پڑھی لیکن یہ اسے نیا لباس پہن کر، بچوں میں عیدی تقسیم کر کے اور قربانی کے جانور ذبح کرکے روایتی انداز میں منانے سے محروم رہے۔
کوئٹہ —
پاکستان کے دوسرے حصوں کی طرح بلوچستان کے زلزلہ زدہ علاقے آواران میں بدھ کو عید منائی گئی لیکن یہ گزشتہ عیدین کی نسبت یکسر مختلف تھی۔
گزشتہ ماہ 7.7 شدت کے زلزلے سے بری طرح متاثر ہونے والے ضلع آوارن میں لوگ اپنے گھروں کے ملبے کے قریب خیموں میں افسردہ بیٹھے اس بات کے منتظر ہیں کہ شاید ان کے مکانات پھر سے تعمیر ہوسکیں اور ان کی زندگی معمول پر آسکے۔
اس علاقے سے تعلق رکھنے والے زاہد بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ لوگوں نے عید کی نماز تو پڑھی لیکن یہ اسے نیا لباس پہن کر، بچوں میں عیدی تقسیم کر کے اور قربانی کے جانور ذبح کرکے روایتی انداز میں منانے سے محروم رہے۔
’’میں نے بچوں سے پوچھا کہ آپ کو عیدی چاہیے تو وہ کہنے لگے کہ عیدی کا کیا کریں گے جب گھر ہی نہیں۔۔۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کی طرف سے راشن کی فرہامی نے چند دنوں کے لیے یہاں کے لوگوں کو خوراک کی فکر سے آزاد کردیا ہے لیکن ان کے دیگر بنیادی مسائل خصوصاً صحت سے متعلق مسئلے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سنگین صورتحال اختیار کرتے جارہے ہیں۔
زلزلے سے جہاں چار سو کے لگ بھگ لوگ ہلاک ہوئے وہیں سینکڑوں افراد زخمی بھی ہوئے جن کے علاج کے لیے ضلع کے تین اسپتال ناکافی ثابت ہورہے ہیں۔
ایک اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکڑ شفیع بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ لوگ زلزلے کے بعد سے خوف کا شکار ہیں اور ان میں سے اکثر نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ اسپتال آنے والے مریضوں میں ایک بڑی تعداد دست واسہال، نمونیا اور ملیریا میں مبتلا ہو کر یہاں پہنچی ہے۔
ڈاکٹر بلوچ نے بتایا کہ ان مریضوں کو لانے لے جانے کے لیے ایمبولینس کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
’’ دور دراز علاقے ہیں جب کسی کو تکلیف ہو یا بیماری ہو یہاں تک آنا اس کے لیے سب سے مشکل کام ہے، اتنے بڑے علاقے میں ایک ایمبولینس پہنچ ہی نہیں سکتی۔‘‘
متاثرہ علاقوں میں مصروف عمل ایک ڈاکٹر راحت جبین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ خاص طور سے یہاں حاملہ خواتین کو سخت مشکلات کا سامنا ہے اور ناکافی سہولتوں کی وجہ سے اب تک دس سے زائد خواتین جان کی بازی بھی ہار چکی ہیں۔
’’جس حالت میں مریضوں کو یہاں لایا جاتا ہے وہ یا تو نیم بے ہوش ہوتے ہیں یا پھر کوما کی کیفیت میں ہوتے ہیں، ہمارے پاس یہاں اسپتال میں ایسی سہولت نہیں کہ انھیں داخل کیا جاسکے، خاص طور پر حاملہ خواتین کے لیے بہت مسئلہ ہے جتنی بھی آرہی ہیں بہت بری حالت میں ہوتی ہیں اور پھر انھیں ہم کراچی بھیجتے ہیں لیکن ان میں اکثر وہاں پہنچنے سے پہلے ہی مر جاتی ہیں۔‘‘
ڈاکٹر جبین نے بتایا کہ بعض واقعات میں زچہ و بچہ کو ابتدائی طبی امداد دے کر عارضی طور پر ان کی جان تو بچالی گئی لیکن جب یہی خواتین اپنے علاقے میں جاتی ہیں تو انھیں پھر زندگی اور موت کی کشمکش کا سامنا کرنا پڑا۔
انھوں نے بتایا کہ ان کے ہاں زلزلے کے بعد سے اب تک دو درجن کے قریب زچگیاں ہوچکی ہیں۔
زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں وفاقی و صوبائی حکومت کے امدادی اداروں کے علاوہ فوج اور فرنٹیئر کور کی طرف سے سرگرمیاں جاری ہیں لیکن متاثرین کی بحالی و آبادکاری کے لیے ابھی مزید وقت درکار ہے۔
گزشتہ ماہ 7.7 شدت کے زلزلے سے بری طرح متاثر ہونے والے ضلع آوارن میں لوگ اپنے گھروں کے ملبے کے قریب خیموں میں افسردہ بیٹھے اس بات کے منتظر ہیں کہ شاید ان کے مکانات پھر سے تعمیر ہوسکیں اور ان کی زندگی معمول پر آسکے۔
اس علاقے سے تعلق رکھنے والے زاہد بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ لوگوں نے عید کی نماز تو پڑھی لیکن یہ اسے نیا لباس پہن کر، بچوں میں عیدی تقسیم کر کے اور قربانی کے جانور ذبح کرکے روایتی انداز میں منانے سے محروم رہے۔
’’میں نے بچوں سے پوچھا کہ آپ کو عیدی چاہیے تو وہ کہنے لگے کہ عیدی کا کیا کریں گے جب گھر ہی نہیں۔۔۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کی طرف سے راشن کی فرہامی نے چند دنوں کے لیے یہاں کے لوگوں کو خوراک کی فکر سے آزاد کردیا ہے لیکن ان کے دیگر بنیادی مسائل خصوصاً صحت سے متعلق مسئلے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سنگین صورتحال اختیار کرتے جارہے ہیں۔
زلزلے سے جہاں چار سو کے لگ بھگ لوگ ہلاک ہوئے وہیں سینکڑوں افراد زخمی بھی ہوئے جن کے علاج کے لیے ضلع کے تین اسپتال ناکافی ثابت ہورہے ہیں۔
ایک اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکڑ شفیع بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ لوگ زلزلے کے بعد سے خوف کا شکار ہیں اور ان میں سے اکثر نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ اسپتال آنے والے مریضوں میں ایک بڑی تعداد دست واسہال، نمونیا اور ملیریا میں مبتلا ہو کر یہاں پہنچی ہے۔
ڈاکٹر بلوچ نے بتایا کہ ان مریضوں کو لانے لے جانے کے لیے ایمبولینس کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
’’ دور دراز علاقے ہیں جب کسی کو تکلیف ہو یا بیماری ہو یہاں تک آنا اس کے لیے سب سے مشکل کام ہے، اتنے بڑے علاقے میں ایک ایمبولینس پہنچ ہی نہیں سکتی۔‘‘
متاثرہ علاقوں میں مصروف عمل ایک ڈاکٹر راحت جبین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ خاص طور سے یہاں حاملہ خواتین کو سخت مشکلات کا سامنا ہے اور ناکافی سہولتوں کی وجہ سے اب تک دس سے زائد خواتین جان کی بازی بھی ہار چکی ہیں۔
’’جس حالت میں مریضوں کو یہاں لایا جاتا ہے وہ یا تو نیم بے ہوش ہوتے ہیں یا پھر کوما کی کیفیت میں ہوتے ہیں، ہمارے پاس یہاں اسپتال میں ایسی سہولت نہیں کہ انھیں داخل کیا جاسکے، خاص طور پر حاملہ خواتین کے لیے بہت مسئلہ ہے جتنی بھی آرہی ہیں بہت بری حالت میں ہوتی ہیں اور پھر انھیں ہم کراچی بھیجتے ہیں لیکن ان میں اکثر وہاں پہنچنے سے پہلے ہی مر جاتی ہیں۔‘‘
ڈاکٹر جبین نے بتایا کہ بعض واقعات میں زچہ و بچہ کو ابتدائی طبی امداد دے کر عارضی طور پر ان کی جان تو بچالی گئی لیکن جب یہی خواتین اپنے علاقے میں جاتی ہیں تو انھیں پھر زندگی اور موت کی کشمکش کا سامنا کرنا پڑا۔
انھوں نے بتایا کہ ان کے ہاں زلزلے کے بعد سے اب تک دو درجن کے قریب زچگیاں ہوچکی ہیں۔
زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں وفاقی و صوبائی حکومت کے امدادی اداروں کے علاوہ فوج اور فرنٹیئر کور کی طرف سے سرگرمیاں جاری ہیں لیکن متاثرین کی بحالی و آبادکاری کے لیے ابھی مزید وقت درکار ہے۔