کوئٹہ —
پاکستان کے پسماندہ ترین صوبہ بلوچستان میں قوم پرست سیاسی جماعتوں نے یہاں سرگرم عسکری گروہوں سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اپنی کارروائیاں عارضی طور پر بند کرنے کی درخواست کی ہے تاکہ حالیہ زلزلے سے متاثرہ ہزاروں افراد کو امداد کی بلا تعطل فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔
ستمبر کے اواخر میں آنے والے 7.7 شدت کے تباہ کن زلزلے میں بلوچستان کا جنوبی ضلع آواران سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا۔
آواران کا شمار اُن اضلاع میں ہوتا ہے جہاں بلوچ عسکریت پسند گروہوں کا اثر و رسوخ نسبتاً زیادہ ہے اور اس ہی وجہ سے یہاں امدادی سرگرمیاں فوج اور دیگر سکیورٹی فورسز کی نگرانی میں سر انجام دی جا رہی ہیں۔
لیکن عسکریت پسندوں کی جانب سے فوجی و دیگر سرکاری اہداف پر وقتاً فوقتاً مہلک حملوں کے تناظر میں کچھ موقعوں پر امدادی کارروائیوں میں تاخیر کا سامنا ہوا، اگرچہ فوج نے تمام خطرات کے باوجود اپنا کام جاری رکھنے کا عزم دہرایا ہے۔
نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن بلوچستان اسمبلی رحمت بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ضلع آواران میں زلزلہ زدگان کی مشکلات دور کرنے کے سلسلے میں جاری کوششوں کی کامیابی علاقے میں امن سے مشروط ہے۔
’’تمام دوستوں، بھائیوں سے یہ اپیل ہے کہ انسانیت کے ناتے اور اس (بلوچ) سر زمین سے محبت کی خاطر عارضی جنگ بندی کریں تاکہ امدادی ٹیمیں بے یار و مددگار لوگوں کو امداد کی فراہمی یقینی بنا سکیں۔‘‘
صوبائی حکومت کے ترجمان جان محمد بلیدی نے اعتراف کیا کہ آواران خصوصاً اس کے علاقے ماشکے میں شدت پسندوں کی حالیہ کارروائیاں امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹ بنی ہیں۔
’’جب تک (حملوں کا) یہ سلسلہ جاری رہے گا تو مشکلات رہیں گی، امدادی سرگرمیاں متاثر ہوں گی اور خوف کا عالم ہوگا ... تو اس میں بہتری اس وقت آ سکتی ہے جب شدت پسند یہ سلسلہ بند کریں اور بلوچستان حکومت کو موقع دیں کہ وہ مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر بہتر انداز میں امدادی سرگرمیوں کو آگے بڑھائے۔‘‘
جان محمد بلیدی کا کہنا تھا کہ بلوچستان حکومت زلزلہ متاثرین کی بحالی نو کے لیے پُر عزم ہے اور نقصانات کی مصدقہ تفصیلات جاننے کے لیے متعلقہ صوبائی محکموں کی ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں، جس کے بعد متاثرہ علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے سلسلے میں منصوبہ بندی کی جائے گی۔
اُنھوں نے تسلیم کیا کی بحالی نو کے عمل میں مالی دشواریوں کا سامنا ہو سکتا ہے اور اُن کے بقول اس امر کے پیش نظر ہی وزیرِ اعلیٰ عبدالمالک بلوچ نے بین الاقوامی برادری اور مخیر حضرات سے مدد کی اپیل کی ہے۔
اُدھر بلوچستان نیشنل پارٹی سردار اختر مینگل گروپ کے مرکزی نائب صدر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے عسکری گروہوں پر روز دیا ہے کہ بین الااقوامی غیر سرکاری تنظیموں کو علاقے میں کام کرنے کے لیے سازگار ماحول فراہم کیا جائے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 24 ستمبر کو 7.7 اور 28 ستمبر کو 7.2 شدت کے زلزلوں سے بلوچستان میں لگ بھگ 400 افراد ہلاک اور 800 سے زائد زخمی ہوئے۔ اس قدرتی آفت کے دوران 30 ہزار سے زائد گھر مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئے۔
زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیوں میں شریک فوج اور فرنٹیئر کور (ایف سی) کے اہلکاروں پر بلوچ عسکری تنظیموں کے حملوں میں اب تک فوج کے دو اور ایف سی کے چار جوان ہلاک ہو چکے ہیں۔
قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا اور آبادی کے لحاظ سب چھوٹا صوبہ ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے اس صوبے میں بعض بلوچ رہنما اکثر و بیشتر ریاست کے خلاف اور آزاد بلوچستان کے قیام کے لیے بر سر پیکار رہے ہیں اور یہ عوامل صوبے میں کئی فوجی آپریشنز کا سبب بھی بن چکے ہیں۔
ستمبر کے اواخر میں آنے والے 7.7 شدت کے تباہ کن زلزلے میں بلوچستان کا جنوبی ضلع آواران سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا۔
آواران کا شمار اُن اضلاع میں ہوتا ہے جہاں بلوچ عسکریت پسند گروہوں کا اثر و رسوخ نسبتاً زیادہ ہے اور اس ہی وجہ سے یہاں امدادی سرگرمیاں فوج اور دیگر سکیورٹی فورسز کی نگرانی میں سر انجام دی جا رہی ہیں۔
لیکن عسکریت پسندوں کی جانب سے فوجی و دیگر سرکاری اہداف پر وقتاً فوقتاً مہلک حملوں کے تناظر میں کچھ موقعوں پر امدادی کارروائیوں میں تاخیر کا سامنا ہوا، اگرچہ فوج نے تمام خطرات کے باوجود اپنا کام جاری رکھنے کا عزم دہرایا ہے۔
نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن بلوچستان اسمبلی رحمت بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ضلع آواران میں زلزلہ زدگان کی مشکلات دور کرنے کے سلسلے میں جاری کوششوں کی کامیابی علاقے میں امن سے مشروط ہے۔
’’تمام دوستوں، بھائیوں سے یہ اپیل ہے کہ انسانیت کے ناتے اور اس (بلوچ) سر زمین سے محبت کی خاطر عارضی جنگ بندی کریں تاکہ امدادی ٹیمیں بے یار و مددگار لوگوں کو امداد کی فراہمی یقینی بنا سکیں۔‘‘
صوبائی حکومت کے ترجمان جان محمد بلیدی نے اعتراف کیا کہ آواران خصوصاً اس کے علاقے ماشکے میں شدت پسندوں کی حالیہ کارروائیاں امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹ بنی ہیں۔
’’جب تک (حملوں کا) یہ سلسلہ جاری رہے گا تو مشکلات رہیں گی، امدادی سرگرمیاں متاثر ہوں گی اور خوف کا عالم ہوگا ... تو اس میں بہتری اس وقت آ سکتی ہے جب شدت پسند یہ سلسلہ بند کریں اور بلوچستان حکومت کو موقع دیں کہ وہ مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر بہتر انداز میں امدادی سرگرمیوں کو آگے بڑھائے۔‘‘
جان محمد بلیدی کا کہنا تھا کہ بلوچستان حکومت زلزلہ متاثرین کی بحالی نو کے لیے پُر عزم ہے اور نقصانات کی مصدقہ تفصیلات جاننے کے لیے متعلقہ صوبائی محکموں کی ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں، جس کے بعد متاثرہ علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے سلسلے میں منصوبہ بندی کی جائے گی۔
اُنھوں نے تسلیم کیا کی بحالی نو کے عمل میں مالی دشواریوں کا سامنا ہو سکتا ہے اور اُن کے بقول اس امر کے پیش نظر ہی وزیرِ اعلیٰ عبدالمالک بلوچ نے بین الاقوامی برادری اور مخیر حضرات سے مدد کی اپیل کی ہے۔
اُدھر بلوچستان نیشنل پارٹی سردار اختر مینگل گروپ کے مرکزی نائب صدر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے عسکری گروہوں پر روز دیا ہے کہ بین الااقوامی غیر سرکاری تنظیموں کو علاقے میں کام کرنے کے لیے سازگار ماحول فراہم کیا جائے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 24 ستمبر کو 7.7 اور 28 ستمبر کو 7.2 شدت کے زلزلوں سے بلوچستان میں لگ بھگ 400 افراد ہلاک اور 800 سے زائد زخمی ہوئے۔ اس قدرتی آفت کے دوران 30 ہزار سے زائد گھر مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئے۔
زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیوں میں شریک فوج اور فرنٹیئر کور (ایف سی) کے اہلکاروں پر بلوچ عسکری تنظیموں کے حملوں میں اب تک فوج کے دو اور ایف سی کے چار جوان ہلاک ہو چکے ہیں۔
قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا اور آبادی کے لحاظ سب چھوٹا صوبہ ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے اس صوبے میں بعض بلوچ رہنما اکثر و بیشتر ریاست کے خلاف اور آزاد بلوچستان کے قیام کے لیے بر سر پیکار رہے ہیں اور یہ عوامل صوبے میں کئی فوجی آپریشنز کا سبب بھی بن چکے ہیں۔