پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ایک سیاسی معاہدے کے تحت وزارت اعلیٰ کا منصب نیشنل پارٹی سے مسلم لیگ ن کو منتقل ہو گیا ہے اور جمعرات کو سردار ثنا اللہ زہری بلامقابلہ نئے وزیراعلیٰ منتخب ہو گئے۔
ایک روز قبل ہی نیشنل پارٹی کے عبدالمالک بلوچ نے وزارت اعلیٰ کے منصب سے استعفیٰ دیا تھا وہ جون 2013ء سے اس عہدے پر فائز تھے۔
2013ء کے عام انتخابات کے بعد بلوچستان سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی تین بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن، نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے مری میں شراکت اقتدار کا ایک معاہد کیا تھے جس کے تحت پانچ سالہ آئینی مدت کے نصف عرصے کے بعد وزرات اعلیٰ کا منصب نیشنل پارٹی سے مسلم لیگ ن کو منتقل کر دیا جائے گا۔
جمعرات کو ہی مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والی رکن صوبائی اسمبلی راحیلہ حمید خان درانی بھی بلا مقابلہ اسمبلی کی اسپیکر منتخب ہو گئیں۔ انھیں صوبے کی تاریخ کی پہلی خاتون اسپیکر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔
صوبائی اسمبلی کے اسپیکر کا منصب رواں سال مئی میں جان محمد جمالی کے مستعفی ہونے کے بعد سے خالی تھا اور ڈپٹی اسپیکر قدوس بزنجو عبوری طور پر یہ فرائض انجام دیتے آرہے تھے۔
ایوان سے خطاب کرتے ہوئے نو منتخب اسپیکر راحیلہ درانی کا کہنا تھا کہ وہ اس انتخاب پر ایوان کے تمام ارکان کی شکر گزار ہیں۔
"میں ان سب کی شکر گزار ہوں، انھوں (ارکان اسمبلی) نے آج مجھے منتخب کر کے معاشرے میں خواتین کی برابری کا پیغام دیا ہے۔ میں اس کامیابی کو ذاتی طور پر اپنی ماں اور بلوچستان کی تمام ماؤں کے نام کرتی ہوں۔"
سردار ثنا اللہ زہری نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک خاتون کو اسپیکر منتخب کر کے خواتین کی عزت کو مقدم رکھنے کی بلوچ روایت کو برقرار رکھا گیا ہے۔
"قرآن کے بعد ہم اپنی خواتین کو سب سے زیادہ عزت دیتے ہیں جب ہماری لڑائیاں ہوتی ہیں اس میں لاشیں پڑی ہوتی ہیں جب ہماری خواتین اپنے دوپٹے لے کر جنگ کے میدان میں آتی ہیں تو ہم اپنی لڑائیاں ختم کر کے چلے جاتے ہیں آج ہم نے پھر ان روایات کو دہرایا ہے۔۔۔جب سے بلوچسستان اسمبلی بنی ہے اس میں پہلی مرتبہ ایک خاتون کو اس کرسی پر بٹھایا ہے اس کا سارا سہرا پورے معزز ایوان اور بلوچستان کے غیور عوام کے سر ہے۔"
بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال لیکن پاکستان کا پسماندہ ترین صوبہ ہے۔ سبکدوش ہونے والی وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ کے دور حکومت میں صوبے کے مسائل کے حل کے لیے خاطر خواہ اقدام کیے گئے جن سے ماضی کی نسبت امن و امان سمیت دیگر مسائل کے حل کی راہ ہموار کرنے میں قابل ذکر پیش رفت دیکھی گئی۔
مبصرین سیاسی افہام و تفہیم سے صوبے کے انتظامی سربراہ کے منصب کی تبدیلی کو ملکی سیاست کے لیے ایک اچھا شگون قرار دیتے ہیں۔