سیکرٹری داخلہ بلوچستان کا کہنا تھا عوام کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیح ہے اور خصوصاً انتخابات کے دوران ماحول کو پرامن رکھنے کے لیے صوبے کے تمام 30 اضلاع میں خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔
کوئٹہ —
پاکستان میں حالیہ ہفتوں کے دوران سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، کارکنوں اور دیگر انتخابی امیدواروں پر جاری پر تشدد حملوں کے بعد ملک میں عام انتخابات کے پرامن انعقاد پر خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے لیکن جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے سیکرٹری داخلہ اکبر حسین درانی کا کہنا ہے کہ حکومت نے امن و امان کی صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لیے انتظامات تقریباً مکمل کر لیے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سیکرٹری داخلہ بلوچستان کا کہنا تھا عوام کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیح ہے اور خصوصاً انتخابات کے دوران ماحول کو پرامن رکھنے کے لیے صوبے کے تمام 30 اضلاع میں خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔
’’یکم سے پندرہ مئی تک ہم نے چھ ہزار ایک سو فوج کے جوان مانگے ہیں جو ضلع اور تحصیل کی سطح پر تعینات کیے جائیں گے، وہ پولنگ اسٹیشن پر نہیں تعینات نہیں ہوں گے، اس کے علاوہ ہماری تقریباً 17 ہزار ایف سی ہے، 15 ہزار کے قریب لیویز کے جوان ہیں اور اسی طرح پولیس اور بلوچستان کانسٹبلری کے 28 ہزار اہلکار تعینات ہوں گے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ انتخابات کا بائیکاٹ کرنے والی سیاسی جماعتیں بھی اس بار الیکشن میں حصہ لی رہی ہیں جو ایک خوش آئند بات ہے اور نگراں حکومت ان جماعتوں اور ووٹروں کو یقین دلانا چاہتی ہے کہ تمام لوگوں کو بھرپور تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
سیکرٹری داخلہ بلوچستان اکبر حسین درانی کا کہنا تھا کہ مکران اور قلات ڈویژن کے اضلاع کو حساس ترین قرار دیا گیا ہے جب کہ کوئٹہ، بولان، جعفر آباد، نصیر آباد اور ڈیرہ بگٹی کے بعض علاقوں کو حساس قرار دیا گیا ہے۔
امن و امن کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں ان کا کہنا تھا کہ انتخابات میں کسی خاص تنظیم یا گروہ کی طرف سے حملوں کا خطرہ نہیں ہے لیکن امن و امان میں خلل ڈالنے والے عناصر سے نمٹنے کے لیے انھوں نے حکمت عملی طے کر لی گئی۔
’’جو ڈسٹربنس اگر کوئی ہوئی ہے تو وہ عسکریت پسند تنظیمیں ہیں جو یہ نہیں چاہتیں کہ یہ انتخابات ہوں، انھیں سبوتاژ کیا جائے لیکن اس کے لیے ظاہر ہے ریاست کی اپنی پالیسی ہوتی ہے جو ہم نے طے کر لی ہے۔‘‘
اکبر درانی نے بتایا کہ انتخابات کے دوران امیدواروں کو حکومت نے سکیورٹی فراہم کی اور بعض امیدواروں کو لائسنس والا اسلحہ رکھنے کی بھی اجازت دی گئی ہے لیکن اس کی نمائش کی اجازت نہیں ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ وزارت خارجہ کی طرف سے ملنے والے احکامات کی روشنی میں بلوچستان کی افغانستان سے ملنے والی سرحد پر آمدو رفت بند پولنگ والے دن بند رہے گی اور پاک افغان سرحد پر موجود بعض خالی پوائنٹس پر ایف سی کو بھی تعینات کیا جائے گا۔
اُدھر بلوچستان میں فوج کے ہیڈ کوارٹر کے ترجمان نے بتایا کہ صوبائی حکومت کی درخواست پر صوبے کے دور افتادہ اضلاع میں فوجیوں کی تعیناتی کے لیے دستے روانہ کر دیئے گئے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سیکرٹری داخلہ بلوچستان کا کہنا تھا عوام کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیح ہے اور خصوصاً انتخابات کے دوران ماحول کو پرامن رکھنے کے لیے صوبے کے تمام 30 اضلاع میں خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔
’’یکم سے پندرہ مئی تک ہم نے چھ ہزار ایک سو فوج کے جوان مانگے ہیں جو ضلع اور تحصیل کی سطح پر تعینات کیے جائیں گے، وہ پولنگ اسٹیشن پر نہیں تعینات نہیں ہوں گے، اس کے علاوہ ہماری تقریباً 17 ہزار ایف سی ہے، 15 ہزار کے قریب لیویز کے جوان ہیں اور اسی طرح پولیس اور بلوچستان کانسٹبلری کے 28 ہزار اہلکار تعینات ہوں گے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ انتخابات کا بائیکاٹ کرنے والی سیاسی جماعتیں بھی اس بار الیکشن میں حصہ لی رہی ہیں جو ایک خوش آئند بات ہے اور نگراں حکومت ان جماعتوں اور ووٹروں کو یقین دلانا چاہتی ہے کہ تمام لوگوں کو بھرپور تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
سیکرٹری داخلہ بلوچستان اکبر حسین درانی کا کہنا تھا کہ مکران اور قلات ڈویژن کے اضلاع کو حساس ترین قرار دیا گیا ہے جب کہ کوئٹہ، بولان، جعفر آباد، نصیر آباد اور ڈیرہ بگٹی کے بعض علاقوں کو حساس قرار دیا گیا ہے۔
امن و امن کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں ان کا کہنا تھا کہ انتخابات میں کسی خاص تنظیم یا گروہ کی طرف سے حملوں کا خطرہ نہیں ہے لیکن امن و امان میں خلل ڈالنے والے عناصر سے نمٹنے کے لیے انھوں نے حکمت عملی طے کر لی گئی۔
’’جو ڈسٹربنس اگر کوئی ہوئی ہے تو وہ عسکریت پسند تنظیمیں ہیں جو یہ نہیں چاہتیں کہ یہ انتخابات ہوں، انھیں سبوتاژ کیا جائے لیکن اس کے لیے ظاہر ہے ریاست کی اپنی پالیسی ہوتی ہے جو ہم نے طے کر لی ہے۔‘‘
اکبر درانی نے بتایا کہ انتخابات کے دوران امیدواروں کو حکومت نے سکیورٹی فراہم کی اور بعض امیدواروں کو لائسنس والا اسلحہ رکھنے کی بھی اجازت دی گئی ہے لیکن اس کی نمائش کی اجازت نہیں ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ وزارت خارجہ کی طرف سے ملنے والے احکامات کی روشنی میں بلوچستان کی افغانستان سے ملنے والی سرحد پر آمدو رفت بند پولنگ والے دن بند رہے گی اور پاک افغان سرحد پر موجود بعض خالی پوائنٹس پر ایف سی کو بھی تعینات کیا جائے گا۔
اُدھر بلوچستان میں فوج کے ہیڈ کوارٹر کے ترجمان نے بتایا کہ صوبائی حکومت کی درخواست پر صوبے کے دور افتادہ اضلاع میں فوجیوں کی تعیناتی کے لیے دستے روانہ کر دیئے گئے ہیں۔