دوران حراست تشدد کی روک تھام کا بل سینیٹ میں پیش

پاکستان میں حزب مخالف کی ایک قانون ساز نے زیر حراست افراد کے خلاف تشدد اور حراست میں ہلاکت کی روک تھام کا ایک مجوزہ بل پیر کو پارلیمان کے ایوان بالا ' ’سینٹ‘ میں پیش کیا، جسے ایوان کی متعلقہ کمیٹی کے سپر کر دیا گیا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمن نے حراست کے دوران تشدد اور ہلاکت کے تدارک کا مجوزہ بل پیش کرتے کہا کہ گزشتہ برسوں کے دوران پاکستان میں پولیس کی حراست میں تشدد اور ہلاکتوں کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔ ان کے بقول زیر حراست تشدد کی روک تھام سے متعلق مناسب قانون نہ ہونے کی وجہ سے ان واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

شیری رحمان نے ایوان میں بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ مجوزہ بل کے تحت تشدد اور تشدد کا سبب بننے والے عوامل کی تعریف وضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور زیر حراست شخص کے خلاف کوئی بھی ایسا عمل جو ذہنی یا جسمانی تکلیف کا باعث بنے، تشدد کے دائرے میں آئے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ مجوزہ بل میں ملکی قوانین کو اقوام متحدہ کی تشدد کے خلاف قرارداد کے مطابق وضح کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان نے تشدد کے خلاف اقوام متحدہ کی قرارد کی 2010 میں توثیق کر چکا ہے جس کے تحت ملک میں دوران حراست مبینہ تشدد کی روک تھام کے لیے انتطامی اور قانونی اقدمات کرنا حکومت کے لیے ضروری ہیں۔

مجوزہ بل میں دوران حراست تشدد سے کسی بھی شخص کی ہلاکت یا اسے جنسی تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے واقعات میں ملوث اہل کاروں کے خلاف جرم ثابت ہونے پر عمر قید اور 30 لاکھ جرمانے کی سزا کی تجویز کی گئی ہے۔

کسی اہل کار کے براست یا بالواسطہ زیرحراست شخص پر تشدد میں ملوث ہونے کی صورت میں کم ازکم تین سال قید اور کم ازکم 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔

زیرحراست شخص پر تشدد کے ذریعے اقبال جرم کرانے یا اس کی گواہی حاصل کرنے کو جرم قرار دینے کے تجویز دی گئی ہے، اور اس طریقے حاصل کردہ شہادت یا اقبالی بیان کسی عدالت میں قابل قبول نہیں ہو گا۔

مرد اہل کار کسی خاتون کو حراست میں لینے اور رکھنے کا مجاز نہیں ہو گا، صرف خاتون اہل کار ہی کسی خاتون کو حراست میں لینے کی مجاز ہو گی۔

حراست تشدد کے دوران تشدد کے خلاف شکایت متعلقہ سیشن عدالت کی جا سکتی ہے۔ اگر زیر حراست شخص کسی عدالت سامنے یہ کہے کہ اس پر تشدد روا رکھا گیا ہے تو عدالت اس کا بیان ریکارڈ کر کے طبی معائنہ کا حکم دی سکتی ہے، جس کی رپورٹ 24 گھنٹوں میں اسی عدالت میں پیش کی جائے گی۔

اگر عدالت اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ مذکورہ شخص پر تشدد کیا گیا تھا تو یہ معاملہ متعلقہ سیشن کورٹ کے سپرد کر دیا جائے گا تا کہ اس پر کارروائی کی جا سکے۔

یا رہے کہ جب یہ بل سینیٹ میں پیش کیا گیا اس وقت انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری بھی ایوان میں موجود تھیں، جنہوں نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جس کے بعد چیئرمین سینیٹ نے مجوزہ بل مزید کارروائی کے لیے ایوان کی متعلقہ کمیٹی کے حوالے کر دیا۔

انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں اور سماجی کارکنوں نے دوران حراست تشدد کو جرم قرار دینے کے بل کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے پاکستان اقوام متحدہ کے تشدد کے خلاف کنوینشن کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی جانب آگے بڑھے گا۔

غیر سرکاری تنظیم جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی ڈائریکٹر سارہ بلال نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ زیر حراست افراد پر تشدد کے واقعات کی روک تھام کے لیے مجوزہ قانونی سازی ایک اہم پیش رفت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بل کے قانون بننے سے حراست کے دوران تشدد کے واقعات کی روک تھام ہو سکے گی۔

انسانی حقوق کی ایک تنظیم ہیومن رائٹس کمشن آف پاکستان ' ایچ آر سی پی' کے کامران عارف نے کہا ہے کہ ایک عرصے سے پاکستان سے یہ مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ وہ اقوام متحدہ کے کنونشن کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ اس جانب پیش رفت ایک مثبت اقدام ہو گا۔

کامران عارف کا کہنا تھا کہ اگرچہ پاکستان نے تشدد کے خلاف اقوام متحدہ کی کنوینش کے توثیق کی ہوئی ہے لیکن ابھی تک پاکستان کے فوجدداری قوانین میں حراست کے دوران تشدد کی کوئی تعریف وضع کی گئی ہے اور نہ ہی اسے جرم قرار دیا گیا ہے۔

انہوں نے اس بل کو پولیس اصلاحات کی جانب ایک اہم قدم قرار دیتے ہوئے کہا دوران تشدد کا خاتمہ کسی قانونی فریم ورک کی موجودگی کے بغیر ممکن نہیں ہو گا۔

پاکستان میں زیر حراست افراد پر تشدد کے واقعات سے متعلق مصدقہ اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ تاہم اس طرح کے واقعات اکثر میڈیا پر رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔ سینیٹر شیری رحمان کے بقول گزشتہ ایک سال کے دوران ملک بھر میں 50 سے زائد افراد پولیس کی حراست میں ہلاک ہو چکے ہیں۔