میجر جنرل اعجاز شاہد کے بقول فرنیٹیر کور کے پاس افرادی قوت کی کمی کے باعث ان عناصر کے خلاف کارروائی میں انھیں مشکلات کا سامنا بھی رہتا ہے۔
کو ئٹہ —
پاکستان کا جنوب مغربی صوبہ بلوچستان گزشتہ کئی برسوں سے بدامنی کی لپیٹ میں ہے جہاں دہشت گردی، اغوا برائے تاوان اور ہدف بنا کر قتل کرنے کی وارداتوں کے علاوہ یہاں پولیس اور دیگر نیم فوجی اہلکاروں پر جان لیوا حملے بھی ہوتے رہے۔
ہفتہ کو تشدد کے تازہ واقعات صوبائی دارالحکومت کوئٹہ اور ضلع سبی میں پیش آئے۔ کوئٹہ میں ایک صوبائی قانون ساز عبدالماجد ابڑو کی گاڑی کے قریب سڑک میں نصب بم پھٹ گیا تاہم اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ بعد ازاں سبی کے علاقے بختیار آباد میں موٹرسائیکل مکینک کی ایک دکان کے اندر پہلے سے رکھے گئے بارودی مواد میں دھماکے سے کم ازکم ایک شخص ہلاک اور آٹھ زخمی ہوگئے۔
تاحال ان واقعات کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی لیکن حکام ایسے واقعات کا ذمہ دار کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کو ٹھہراتے رہے ہیں۔
ادھر صوبے میں فرنٹیئر کور کے سربراہ میجر جنرل اعجاز شاہد نے دعویٰ کیا ہے کہ بلوچستان میں اب بھی عسکریت پسندوں کے فراری کیمپ میں موجود ہیں جہاں سے تربیت حاصل کرنے والے عناصر سکیورٹی فورسز پر حملوں میں ملوث ہیں۔
کوئٹہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ صوبے کے وسیع و عریض رقبے پر پھیلے فراری کیمپوں کے خلاف ان کی فورسز کارروائیاں کرتی رہی ہیں جو آئندہ بھی جاری رہیں گی۔
فراری کیمیوں کی تعداد اور وہاں موجود عسکریت پسندوں کے بارے میں میجر جنرل اعجاز شاہد کا کہنا تھا کہ اس بابت درست اعدادوشمار بتانا تھوڑا مشکل ہے۔
’’اندازاً 60 سے 70 کے قریب فراری کیمپ ہوں گے کیمپ لگانے والے ایک جگہ پر نہیں رہتے اپنی لوکیشن تبدیل کرتے رہتے ہیں۔‘‘
ان کے بقول فرنیٹیر کور کے پاس افرادی قوت کی کمی کے باعث ان عناصر کے خلاف کارروائی میں انھیں مشکلات کا سامنا بھی رہتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ گزشتہ چند روز میں انٹیلی جنس اداروں کی معلومات اور مشاورت سے کامیاب آپریشن کرکے بھاری مقدار میں اسلحہ بارود بھی برآمد کیا گیا جس کے بارے میں میجر جنرل اعجاز شاہد کا دعویٰ تھا کہ یہ ہمسایہ ممالک سے لایا گیا، تاہم اُنھوں نے کسی ملک نا نہیں لیا۔
بلوچستان میں متعدد کالعدم علیحدگی پسند بلوچ تنظیمیں سکیورٹی فورسز پر حملوں کی ذمہ داری قبول کرتی ہیں۔
صوبے میں فرنٹیئر کور پر اکثر یہ الزامات بھی عائد کیے جاتے رہے ہیں کہ اس کے اہلکار مختلف کارروائیوں کے دوران لوگوں کی جبری گمشدگیوں میں بھی ملوث ہیں۔ لیکن حکام اس کی تردید کرتے آئے ہیں۔
صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ بلوچستان میں امن و امان قائم کرنے کے لیے ایسے عناصر سے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کو ترجیح دے رہی ہے جس کے لیے حکومتی عہدیداروں کے بقول پہلے ماحول کو ساز گار بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان جان محمد بلیدی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ناراض بلوچوں سے فی الحال براہ راست رابطے تو نہیں ہوئے لیکن بلواسطہ طور پر بات چیت ہورہی ہے۔
ایف سی کی کارروائیوں اور مختلف حلقوں کے اس بارے میں شک وشبہات کے بارے میں ان کا کہنا تھا۔
’’تمام ادارے چاہے وہ وفاقی ہوں، صوبائی ہوں ان کا کام عوام کے جان ومال کی حفاظت کرنا ہے وہ اپنے دائرے میں رہ کر کام کریں تاکہ ہم جب ان (عسکریت پسندوں) کے پاس جائیں انھیں قانون کے مطابق چلنے کا کہنے کے لیے تو ایک جواز ہو ہمارے پاس۔‘‘
وفاقی حکومت صوبائی وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ کو بلوچستان میں امن و امان کے قیام کے لیے اپنی بھرپور معاونت کا یقین دلاتے ہوئے انھیں ناراض بلوچوں سے مذاکرات کی ذمہ داری سونپ چکی ہے۔
صوبائی عہدیداروں کے مطابق اس بارے میں صوبے میں ایک کل جماعتی کانفرنس بھی منعقد کی جائے گی لیکن اس کی حتمی تاریخ کا اعلان تاحال نہیں کیا گیا۔
ہفتہ کو تشدد کے تازہ واقعات صوبائی دارالحکومت کوئٹہ اور ضلع سبی میں پیش آئے۔ کوئٹہ میں ایک صوبائی قانون ساز عبدالماجد ابڑو کی گاڑی کے قریب سڑک میں نصب بم پھٹ گیا تاہم اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ بعد ازاں سبی کے علاقے بختیار آباد میں موٹرسائیکل مکینک کی ایک دکان کے اندر پہلے سے رکھے گئے بارودی مواد میں دھماکے سے کم ازکم ایک شخص ہلاک اور آٹھ زخمی ہوگئے۔
تاحال ان واقعات کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی لیکن حکام ایسے واقعات کا ذمہ دار کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کو ٹھہراتے رہے ہیں۔
ادھر صوبے میں فرنٹیئر کور کے سربراہ میجر جنرل اعجاز شاہد نے دعویٰ کیا ہے کہ بلوچستان میں اب بھی عسکریت پسندوں کے فراری کیمپ میں موجود ہیں جہاں سے تربیت حاصل کرنے والے عناصر سکیورٹی فورسز پر حملوں میں ملوث ہیں۔
کوئٹہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ صوبے کے وسیع و عریض رقبے پر پھیلے فراری کیمپوں کے خلاف ان کی فورسز کارروائیاں کرتی رہی ہیں جو آئندہ بھی جاری رہیں گی۔
فراری کیمیوں کی تعداد اور وہاں موجود عسکریت پسندوں کے بارے میں میجر جنرل اعجاز شاہد کا کہنا تھا کہ اس بابت درست اعدادوشمار بتانا تھوڑا مشکل ہے۔
’’اندازاً 60 سے 70 کے قریب فراری کیمپ ہوں گے کیمپ لگانے والے ایک جگہ پر نہیں رہتے اپنی لوکیشن تبدیل کرتے رہتے ہیں۔‘‘
ان کے بقول فرنیٹیر کور کے پاس افرادی قوت کی کمی کے باعث ان عناصر کے خلاف کارروائی میں انھیں مشکلات کا سامنا بھی رہتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ گزشتہ چند روز میں انٹیلی جنس اداروں کی معلومات اور مشاورت سے کامیاب آپریشن کرکے بھاری مقدار میں اسلحہ بارود بھی برآمد کیا گیا جس کے بارے میں میجر جنرل اعجاز شاہد کا دعویٰ تھا کہ یہ ہمسایہ ممالک سے لایا گیا، تاہم اُنھوں نے کسی ملک نا نہیں لیا۔
بلوچستان میں متعدد کالعدم علیحدگی پسند بلوچ تنظیمیں سکیورٹی فورسز پر حملوں کی ذمہ داری قبول کرتی ہیں۔
صوبے میں فرنٹیئر کور پر اکثر یہ الزامات بھی عائد کیے جاتے رہے ہیں کہ اس کے اہلکار مختلف کارروائیوں کے دوران لوگوں کی جبری گمشدگیوں میں بھی ملوث ہیں۔ لیکن حکام اس کی تردید کرتے آئے ہیں۔
صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ بلوچستان میں امن و امان قائم کرنے کے لیے ایسے عناصر سے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کو ترجیح دے رہی ہے جس کے لیے حکومتی عہدیداروں کے بقول پہلے ماحول کو ساز گار بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان جان محمد بلیدی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ناراض بلوچوں سے فی الحال براہ راست رابطے تو نہیں ہوئے لیکن بلواسطہ طور پر بات چیت ہورہی ہے۔
ایف سی کی کارروائیوں اور مختلف حلقوں کے اس بارے میں شک وشبہات کے بارے میں ان کا کہنا تھا۔
’’تمام ادارے چاہے وہ وفاقی ہوں، صوبائی ہوں ان کا کام عوام کے جان ومال کی حفاظت کرنا ہے وہ اپنے دائرے میں رہ کر کام کریں تاکہ ہم جب ان (عسکریت پسندوں) کے پاس جائیں انھیں قانون کے مطابق چلنے کا کہنے کے لیے تو ایک جواز ہو ہمارے پاس۔‘‘
وفاقی حکومت صوبائی وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ کو بلوچستان میں امن و امان کے قیام کے لیے اپنی بھرپور معاونت کا یقین دلاتے ہوئے انھیں ناراض بلوچوں سے مذاکرات کی ذمہ داری سونپ چکی ہے۔
صوبائی عہدیداروں کے مطابق اس بارے میں صوبے میں ایک کل جماعتی کانفرنس بھی منعقد کی جائے گی لیکن اس کی حتمی تاریخ کا اعلان تاحال نہیں کیا گیا۔