پاکستان میں توہین آمیز مواد نہ ہٹانے پر پاکستان ٹيلی کميونيکيشن اتھارٹی ( پی ٹی اے ) نے آن لائن انسائیکلوپیڈیا ‘وکی پیڈیا’ تک پاکستان میں صارفین کی رسائی کو بلاک کر ديا ہے۔
ترجمان پی ٹی اے کا کہنا ہے کہ توہین آمیز مواد نہ ہٹانے پر وکی پیڈیا کو پاکستان میں ڈی گریڈ کیا گیا تھا۔
پی ٹی اے نے وکی پیڈیا کو 48 گھنٹوں کا حتمی نوٹس جاری کیا تھا, البتہ اس وقت کے دوران سماعت کا موقع دیے جانے کے باوجود وکی پیڈیا نے توہین آمیز مواد ہٹانے کی ہدایت کی تعمیل کی اور نہ اتھارٹی کے سامنے اس کے حکام پیش ہوئے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ توہین آمیز مواد پاکستان میں ایک حساس معاملہ ہے لیکن دنیا بھر میں لاکھوں پلیٹ فارمز پر ایسا مواد موجود ہے۔ یہ صارف کی مرضی ہے کہ وہ کونسا مواد دیکھے یا پھر نہ دیکھے۔ اس مواد کو جواز بنا کر اگر کوئی پلیٹ فارم بند کیا جانا ہے تو پھر ملک میں انٹرنیٹ ہی بند کرنا پڑسکتا ہے۔
پابندی سے متعلق پی ٹی اے حکام کا کہنا ہے کہ رپورٹ کردہ مواد ہٹانے کے بعد اتھارٹی پلیٹ فارم سے پابندیاں ہٹا دے گی۔
Not shocked to hear about #wikipediaban in land of pure!Our investment in blocking knowledge banning books, celebrating intellectual bankruptcy is unmatchable. Censorship is the child of fear and the father of ignorance. #wikipediaBlocked pic.twitter.com/jNeYjtJWBu
— Tariq Malik ™ (@ReplyTariq) February 5, 2023
پاکستان میں وکی پیڈیا کا استعمال کرنے والوں میں ایک بڑی تعداد طلبہ کی ہے۔ اسکول، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلبہ اپنے مضمون سے متعلق بنیادی معلومات وکی پیڈیا سے حاصل کرتے ہیں۔
وکی پیڈیا پر موجود معلومات کی تصدیق نہیں کی جا سکتی جب کہ اس کے صفحات میں صارفین ترامیم طلب کر سکتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں گذشتہ ایک ماہ میں 55 ملین صارفین نے وکی پیڈیا سے استفادہ حاصل کیا۔ ان میں سے بیشتر نے ریسرچ اور معلومات حاصل کرنے کے لیے اس کا وزٹ کیا ،لیکن اب پاکستان میں یہ سہولت دستیاب نہیں ہے۔
پاکستان میں انٹرنیٹ کے ریگولیٹر ادارے پی ٹی اے نے دسمبر 2020 میں بھی گوگل اور وکی پیڈیا کو توہین آمیز مواد کے خلاف نوٹسز جاری کیے تھے۔اس کے علاوہ ایسی ہی شکایات پر ٹک ٹاک سمیت کئی ایپس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بھی بند کیا جاچکا ہے۔
'پابندی سب کو پاکستان کی تاریخ اور ثقافت تک رسائی سے محروم کر دے گی'
دوسری طرف وکی پیڈیا چلانے والے فلاحی ادارے وکی میڈیا فاؤنڈیشن نے اپنا مؤقف دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ علم تک رسائی ایک انسانی حق ہے۔ پاکستان میں وکی پیڈیا کا بلاک ہونا دنیا کی پانچویں سب سے زیادہ آبادی والے ملک کی سب سے بڑے مفت علم کے ذخیرے تک رسائی سے روکتا ہے۔ اگر پابندی جاری رہی تو یہ سب کو پاکستان کی تاریخ اور ثقافت تک رسائی سے محروم کردے گی۔
Wikipedia has been blocked in Pakistan.Today, Pakistan’s Telecommunications Authority blocked @Wikipedia and other Wikimedia projects in the country.Follow the thread for more information 🧵⬇️ (1/4)https://t.co/8xM73if9B2
— Wikimedia Foundation (@Wikimedia) February 4, 2023
وکی میڈیا فاؤنڈیشن نے امید ظاہر کی کہ پاکستان حکومت اپنے مؤقف پر نظرثانی کرتے ہوئے جلد اس ویب سائٹ کو پاکستانی عوام کے لیے کھول دے گی۔
وکی میڈیا فاؤنڈیشن کا کہنا تھا کہ فاؤنڈیشن سائٹ پر موجود مواد کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرتی کہ کونسا مواد رکھا جائے گا اور کونسا نہیں رکھا جائے گا۔اس سائٹ کو تین لاکھ سے زائد ایڈیٹرز دیکھتے ہیں اور ہم ایڈیٹرز کی رائے کا احترام اور سپورٹ کرتے ہیں۔
انٹرنیٹ پر پابندیاں
پاکستان میں انٹرنیٹ پر پابندیاں کوئی نئی بات نہیں اور ماضی میں بھی کئی مرتبہ انٹرنیٹ کی سروسز سمیت کئی ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بند کیا جاتا رہا ہے۔
فریڈم ہاؤس کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ آزاد نہیں ہے اور پاکستان کو سال 2021 میں 100 میں سے صرف 25 پوائنٹس دیے گئے جو پاکستان میں انٹرنیٹ کی آزادی نہ ہونے کو ظاہر کرتے ہیں۔
وکی پیڈیا پر پابندی کے حوالے سے انٹرنیٹ پرآزادی اظہار رائے پر کام کرنے والی ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی نگہت داد کہتی ہیں کہ پاکستان میں ایک ہی غلطی کو بار بار کیا جارہا ہے کہ معاملات کو بہتر بنانے کے بجائے پلیٹ فارمز کو بند کیا جارہا ہے۔
The @PTAofficialpk%27s decision to ban Wikipedia betrays a wilful lack of understanding of the role that social media play in allowing people to obtain, fact-check, share and respond to news and information. #wikipediaBlocked pic.twitter.com/UGRsww6nZB
— Human Rights Commission of Pakistan (@HRCP87) February 5, 2023
انہوں نے کہا کہ وکی پیڈیا پاکستان میں تعلیم کے حوالے سے اہم کردار ادا کررہا ہے اور اس ویب سائٹ پر موجود معلومات کو طالب علم استعمال کرتے ہیں لیکن اسے پاکستان میں بند کرنے سے معلومات اور تعلیم کے سلسلہ کو روکا جارہا ہے۔
نگہت داد نے کہا کہ سال 2010 میں یوٹیوب کو بلاک کیا گیا تھا لیکن آج 13 سال کے بعد بھی ہم اسی مقام پر کھڑے ہیں کہ ہم سب سے آسان حل ڈھونڈ رہے کہ اس ویب سائٹ کو بلاک کردیا جائے۔ بدقسمتی سے ہمارے ریگولیٹرآج بھی ''بین اور بلاک'' کرنے کا رویہ رکھتے ہیں۔ ٹیکنالوجی پر فوکس کرنے کے بجائے ٹیکنالوجی کمپنیوں کو اپنے رولز پر چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
نگہت داد نے کہا کہ وکی پیڈیا عام ٹیک پلیٹ فارم نہیں ہے۔ یہ ایک والنٹیئر رن پلیٹ فارم ہے جس کے مواد کو عالمی سطح پر مکمل طور پر نہیں ہٹایا جاسکتا۔ اس کا ماڈل مختلف ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا ریگولیٹر اپنی مرضی کا مواد صارفین کو دکھانا چاہتا ہے۔ پاکستان میں عدالتوں کی طرف سے بھی کہا گیا کہ کوئی کتاب پسند نہ آنے کی صورت میں لائبریری بند نہیں کی جاسکتی۔
نگہت داد نے کہا کہ مختلف ٹیک کمپنیوں کو ایسے اقدامات سے کیا پیغام جارہا ہے کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری نہ کریں۔ اس وقت ان سائٹس کو بلاک کرنے کے قوانین بھی مبہم ہیں، اس وقت سوشل میڈیا رولز کے تحت سائٹس بند کی جاتی ہیں۔ ان رولز پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کے بعد پارلیمنٹ کو ریویو کرنے کا کہا گیا ہے۔ ایسے میں انہیں کیسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان نے عالمی سطح پر بھی کہا ہے کہ ان سوشل میڈیا رولز پر نظر ثانی کی جا رہی ہے۔
توہین آمیز مواد
پاکستان میں توہینِ مذہب حساس موضوع ہے۔ اس کی بیخ کنی کے لیے بنائے گئے قوانین میں اہانتِ مذہب کے مرتکب افراد کے لیے سخت سزائیں رکھی گئی ہیں۔
Wikipedia was approached for blocking/removal of the said contents by issuing a notice under applicable law & court order(s). An opportunity of hearing was also provided, however, the platform neither complied by removing the blasphemous content nor appeared before the Authority. pic.twitter.com/6dWRcbxHGB
— PTA (@PTAofficialpk) February 1, 2023
پاکستان میں متعلقہ ادارے اور حکام ماضی میں توہین مذہب کے زمرے میں آنے والی تشہیر اور فروغ پر کئی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر قدغنیں لگا چکے ہیں۔ پاکستان میں توہین آمیز مواد کے باعث یوٹیوب کو بھی تقریباً دو سال تک پابندی کا سامنا رہا تھا۔
توہین آمیز مواد کے حوالے سے نگہت داد نے کہا کہ پاکستان کی زیادہ آبادی مسلم ہے اور کوئی بھی ایسا مواد تلاش نہیں کرنا چاہتا، مسلمان صارفین ایسا مواد دیکھنا ہی نہیں چاہتے، شرپسند عناصر ایسا مواد ڈالتے ہیں لیکن اسے بلاک کرنا مسئلے کا حل نہیں بلکہ لوگوں کو تعلیم دینی چاہیے کہ کونسا مواد اچھا ہے اور کونسا نہیں ہے۔
ان کے بقول، بجائے تعلیم اور شعور دینے کے اگر ہم صرف 'بلاک اور بین' کرتے رہیں گے تو مسائل کیسے حل ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز کو بھی مذہب کے حوالے سے احتیاط کرنی چاہیے، لیکن اس میں حکومتوں کو بھی اپنی پالیسی کو بہتر بنانا چاہیے کہ وہ بجائے بلاک کرنے کے اپنے عوام کو ایسا شعور دیں کہ وہ ایسے مواد سے دور رہیں۔