پاکستان کے اقتصادی سروے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں قرضوں کا حجم 38 ہزار 6 ارب روپے ہوچکا ہے۔ جو اس کے جی ڈی پی کے 87.6 فیصد کے برابر ہے۔ دوسرے الفاظ میں پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار جو اس وقت 47 ہزار 709 ارب روپے (یعنی 299 ارب امریکی ڈالرز) بتائی جاتی ہے، اس کے 87 فیصد سے زائد کے برابر پاکستان نے قرضے لے رکھے ہیں۔
اگر اس کا موازنہ پاکستان کا حصہ رہنے والے بنگلہ دیش ہی سے کیا جائے تو اس کے حاصل کردہ کُل قرضوں کا حجم بنگلہ دیش کی مجموعی قومی پیداوار کے صرف 38.9 فیصد ہے۔ جبکہ چین کا 54 فیصد، روس کا 19.48 فیصد اور بھارت کے قرضوں کا حجم کرونا کے بعد تیزی سے بڑھتے ہوئے اس کے جی ڈی پی کے 89.6 فیصد پر جاپہنچا ہے۔
SEE ALSO: حکومت کا معاشی استحکام کا دعویٰ، اپوزیشن نے بجٹ کو جھوٹ کا پلندہ قرار دے کر مسترد کر دیاپچھلے سال کے اختتام پر پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار 41 ہزار 556 ارب روپے یعنی 263 ارب امریکی ڈالرز تھی اور یوں ایک سال کے اندر مجموعی قومی پیداوار میں 14 اعشاریہ 8 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا۔
لیکن اس کے ساتھ ہی قرضوں کا حجم بھی جون 2020 کے مقابلے میں اس سال مارچ تک کے اعداد و شمار کے مطابق 1.7 فیصد مزید بڑھا ہے۔ جو اُس وقت جی ڈی پی کے مقابلے میں 85.9 فیصد تھا۔ قومی اقتصادی سروے میں توقع ظاہر کی گئی ہے کہ رواں مالی سال کے آخر تک یہ شرح 84 فیصد سے نیچے آجائے گی۔
ماضی کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 1971سے لے کر آج تک پاکستان کے قرضوں کے حجم میں سوائے ایک سال کے مسلسل اضافے ہی کا رحجان دیکھا گیا۔ لیکن اس میں تیزی سے اضافہ سال 2007 کے بعد دیکھا گیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
سال 2008 کے اختتام پر پاکستان کے قرضوں کا کُل حجم 6 ہزار 127 ارب روپے تھا جو جون 2013 میں (پاکستان پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور اقتدار کے خاتمے پر) بڑھ کر 14 ہزار 292 ارب روپے جا پہنچا۔ اس کے بعد بھی یہ سلسلہ برقرار رہا ۔
سال 2018 کے اختتام پر جب مسلم لیگ ن کی حکومت رخصت ہو رہی تھی تو ملک پر قرضوں کا کُل حجم بڑھ کر 24 ہزار 953 ارب روپے تک جاپہنچا۔
اس کے بعد تحریک انصاف کی حکومت کے تین سالوں میں اس سے مزید تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور اب تک یہ 38 ہزار ارب سے تجاوز کر چکا ہے۔ جس میں 25 ہزار 552 ارب روپے کا مقامی قرضہ اور 12 ہزار 454 ارب روپے کا بیرونی قرضہ ہے۔
"قرضوں کا اس قدر حجم بتارہا ہے کہ معیشت مسلسل بحرانی کیفیت ہی میں ہے"
سابق وزیر خزانہ اور ماہر معاشیات ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ ملکی قوانین جیسا کہ فسکل رسپانسیبلیٹی اینڈ ڈیبٹ لمی ٹیشن ایکٹ 2005 حکومت کو پابند کرتا ہے کہ مجموعی قومی پیداوار سے 60 فیصد اوپر قرض نہیں لیا جاسکتا۔ اور بجٹ کا سالانہ خسارہ تین سے چار فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چائیے۔ لیکن ہو اس کے بالکل برخلاف رہا ہے۔
ڈاکٹر پاشا کے بقول، سال 18-2017 ء میں بجٹ خسارہ 6.6 فیصد،جبکہ 19-2018 میں یہ خسارہ 9 فیصد رہا، 20-2019ء میں بھی 8.1 فیصد خسارہ جبکہ 2021 میں بھی یہ آٹھ فیصد کے قریب رہنے کا امکان ہے۔
ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ جب اس قدر بڑے خسارے کے بجٹ ہونگے تو یہ ظاہر ہے قرضے لے کر پورے کئے جائیں گے۔ اور ایسی صورت میں قرضوں کا حجم بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ نتیجے کے طور پر تحریک انصاف کی حکومت جب آئی تھی تو بھی یہ 70 فیصد کے قریب تھا اور اب جی ڈی پی کے 87 فیصد سے بھی تجاوز کرچکا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
"پاکستان کا پورا دفاعی خرچہ اور سول حکومت کے اخراجات قرضے لے کر پورے کئے جارہے ہیں"
انہوں نے کہا کہ اس صورتحال کے گہرے اثرات پڑتے ہیں۔ مالی سال 2018 اور 19 کے بعد ایک پریشان کن بات یہ ہوئی کہ وفاقی حکومت کے سارے محصولات ملا کر صوبوں کو دئیے جانے کے بعد بچ جانے والے نیٹ ریونیو سے لئے گئے قرضوں پر سود کی ادائیگی بھی مکمل نہ ہو پائی۔
اس کے معنی یہ ہیں کہ پاکستان کا پورا دفاعی خرچہ اور سول حکومت کے اخراجات قرضے لے کر پورے کئے جارہے ہیں۔ اس سے زیادہ پریشان کن بات اور کیا ہوسکتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری معیشت بدستور بحرانی کیفیت سے گزر رہی ہے۔
"اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کو رقوم کی منتقلی بڑھنے پر قرضے لینے پڑے"
ایک اور ماہر معیشت سمیع اللہ طارق کا بھی یہی خیال ہے کہ قرضوں کا پہاڑ چڑھنے کی نوبت اس لئے پیش آئی کہ گزشتہ آٹھ دس سال سے بجٹ خسارہ میں مسلسل اور تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
اس کی کئی وجوہات میں سے ان کے خیال میں ایک یہ ہے کہ 18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو رقوم کی منتقلی بہت زیادہ بڑھ گئیں۔ تو اس کے نتیجے میں وفاقی حکومت نے اپنے اخراجات پورے کرنے (سول ایڈمنسٹریشن، دفاع، پینشن کی ادائیگی، قرضوں پر سود کی ادائیگی اور ترقیاتی منصوبوں) کے لئے قرض لینے شروع کئے۔
اس قرضے کی ادائیگی کے لئے ڈیبٹ سروسنگ (سود کی ادائیگی) کی رقم بھی کافی بلند تھی اور یوں یہ حجم بڑھتا ہی چلا گیا۔ ان کے مطابق اس وقت حکومت کے لئے اہم مسئلہ پرانے قرضوں اور ان پر سود کی رقم ادائیگی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سمیع اللہ طارق کے بقول قرضوں کے اس قدر بڑے حجم کا اثر افراط زر یعنی مہنگائی اور کرنسی کی قدر کم ہونے کی صورت میں نکلتا ہے۔
سمیع اللہ طارق کے بقول حکومتی ریونیو میں بامعنی اضافہ نہ ہوا، پرائمری سرپلس (یعنی رواں سال کے اخراجات رواں سال ہی کے محصولات سے پورے ہوجائیں) کو برقرار نہ رکھا گیا اور اخراجات کی رفتار دھیمی نہ رکھی گئی تو صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے۔ اسی طرح برآمدات میں اضافہ بھی ناگزیر ہے۔ جس کے لئے ضروری ہے کہ ملک کی قومی پیداواری نمو میں اضافہ ہو۔
SEE ALSO: بجٹ 22-2021: کم سے کم ماہانہ تنخواہ 20 ہزار، پینشن میں 10 فی صد اضافے کا اعلان"قرض لے کر اس کا غلط استعمال معیشت کو اور بھی زیادہ نقصان پہنچاتا ہے"
بہت سے معاشی ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ قرضے لینا اس قدر برا نہیں جتنا اس کا استعمال غلط جگہ کرنا معیشت کو نقصان پہنچاتا ہے۔ سمیع اللہ طارق اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شروع میں ایسا لگتا ہے کہ جس مقصد کے لئے قرضہ لیا جارہا ہے وہ بالآخر معیشت کی بہتری میں ہی خرچ ہوگا لیکن بعد میں یہ غلط بھی ثابت ہوتا ہے۔ ان کے خیال میں بہرحال اس کا حل ریونیو اور برآمدات بڑھانے ہی میں پوشیدہ ہے۔
تین ہزار ارب روپے قرضے میں سے صرف ایک چوتھائی ترقیاتی کاموں کے لئے مختص
ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ اگر بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لئے ایک سال میں ساڑھے تین ہزار ارب روپے کا قرضہ لیا جائے اور پھر اس میں سےصرف ایک چوتھائی رقم یعنی 900 ارب روپے ترقیاتی کاموں پر خرچ ہوں، جبکہ باقی پیسے انتظامی مقاصد کے لئے خرچ ہوں، تو پھر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آنے والے سالوں میں اس قرضے کا ریٹرن کس قدر کم اور اس کے بڑھتے حجم سے مسائل کس قدر پریشان کن ہوسکتے ہیں۔
کچھ ایسی بھی معیشتیں دنیا میں موجود ہیں جنہوں نے اپنی مجموعی قومی پیداوار کے سو فیصد یا اس سے بھی زیادہ کے قرض لے رکھے ہیں لیکن ماہرین کے مطابق ایسی معیشتیں اس لئے نہیں ہلتیں کیونکہ ان کے ہاں بچت زیادہ، شرح سود انتہائی کم اوران کی کیپیٹل مارکیٹ بہت گہری ہوتی ہے جس کی وجہ سے انہیں فنڈنگ میں اس قدر مسائل کا سامنا نہیں ہوتا۔
حکومت کیا کہتی ہے؟
ادھر حکومت کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ کے دوران 80 فیصد قرضوں کا حصول مقامی ذرائع سے، پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز اور حکومتی اجارہ سکوک کے ذریعے حاصل کیا گیا۔ جبکہ مالی سال کے پہلے نو ماہ میں 2104 ارب روپے صرف سود کی مد میں ادا کئے گئے۔
حکومت نے مرکزی بینک سے حاصل کردہ 569 ارب روپے کا قرضہ رواں سال واپس ادا کیا جبکہ دو سال کے دوران حکومت مرکزی بینک سے حاصل کردہ 11 سو ارب روپے کا قرضہ واپس کرچکی ہے۔ حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ قرضوں کے انتظام میں بہتری کے لئے پرائمری سرپلس کو برقرار رکھنے، افراط زر پر قابو پانے، بڑے پیمانے پر معاشی ترقی اور بجٹ خسارے کو کم کئے جانے کے لئے مناسب اقدامات کئے جارہے ہیں۔