حکومتِ پاکستان نے مالی سال 22-2021 کا سالانہ وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے جس کے مطابق کم سے کم ماہانہ تنخواہ 20 ہزار اور پینشن میں 10 فی صد اضافے کا اعلان کیا گیا ہے۔
اسپیکر اسد قیصر کی زیرِ صدارت جمعے کو بجٹ اجلاس شروع ہوا تو وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کیا۔ اس موقع پر حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے ارکان اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے۔
اپوزیشن ارکان نے بجٹ نامنظور کے نعرے لگائے اور احتجاج شروع کر دیا جب کہ اسمبلی کے باہر سرکاری ملازمین کی بھی بڑی تعداد جمع تھی جو بجٹ میں تنخواہوں میں نمایاں اضافہ نہ کیے جانے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کا یہ تیسرا بجٹ ہے جسے قومی اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کیا گیا۔
اپوزیشن کے شور شرابے کے باوجود وزیرِ خزانہ نے بجٹ تقریر جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ وفاقی بجٹ کا حجم آٹھ ہزار 487 ارب روپے رکھا گیا ہے۔
وزیرِ خزانہ کے مطابق وفاقی سرکاری ملازمین کو 10 فی صد ایڈہاک ریلیف دیا جائے گا جب کہ تمام پینشنرز کی پینشن میں 10 فی صد اضافہ کیا جائے گا۔
شوکت ترین کے مطابق کم سے کم ماہانہ اجرت 20 ہزار روپے کی جا رہی ہے اور ٹیکس ری فنڈ کی ادائیگی میں 75 فی صد اضافہ بھی بجٹ تجاویز کا حصہ ہے۔
چھوٹی گاڑیوں پر ٹیکس چھوٹ
بجٹ تقریر کے دوران وزیرِ خزانہ نے بتایا کہ مقامی سطح پر تیار ہونے والی 850 سی سی گاڑیوں پر سیلز ٹیکس 17 فی صد سے کم کر کے بارہ اعشاریہ پانچ فی صد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح 850 سی سی تک کی امپورٹڈ گاڑیوں پر کسٹم اور ریگولیٹری ڈیوٹی پر چھوٹ دینے اور ود ہولڈنگ ٹیکس سے استثنیٰ دینے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔
شوکت ترین کے بقول مقامی سطح پر تیار کردہ چھوٹی گاڑیوں کو ویلیو ایڈڈ ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی سے چھوٹ دی جا رہی ہے جب کہ الیکٹرک گاڑیوں کے لیے سیلز ٹیکس کی شرح 17 فی صد سے کم کر کے ایک فی صد اور ایک سال تک کسٹم ڈیوٹی کم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
تین منٹ سے زائد جاری رہنے والی موبائل فون کالز پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے علاوہ انٹرنیٹ ڈیٹا کے استعمال اور ایس ایم ایس پر بھی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی نافذ کرنا بجٹ تجاویز کا حصہ ہے۔
دفاع کے لیے 1370 اور سول حکومت کے لیے 479 ارب مختص
آئندہ بجٹ میں کل جاری اخراجات کا تخمینہ 7523 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ قرض اور سود کی ادائیگی کے لیے 3060 ارب اور ترقیاتی پروگرام کے لیے 900 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
صوبوں کے لیے گرانٹ کی مد میں 1168 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
آئندہ مالی سال دفاع کے لیے 1370 ارب، سول حکومت کے لیے 479 ارب روپے، سبسڈی کے لیے 682 ارب روپے اور ہنگامی حالات کے لیے 100 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
حکومت نے آئندہ مالی سال کے لیے کل محاصل 7909 ارب روپے کا تعین کیا ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے محاصل 5829 ارب روپے، غیر ٹیکس محاصل 2080 ارب روپے اور صوبوں کا محاصل میں حصہ 3412 ارب روپے رکھا گیا ہے۔
حکومت نے نجکاری سے 252 ارب روپے کی آمدن کا تخمینہ لگایا ہے۔ ٹی بلز اور سکوک بانڈز سے 681 ارب روپے اور بیرونِ ملک سے 1246 ارب روپے آنے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
بجٹ میں کرونا ویکسین کی درآمد پر ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالر خرچ کرنا بھی شامل ہے۔
اس سے قبل قومی اقتصادی کونسل نے آئندہ برس کے لیے 2135 ارب روپے ترقیاتی بجٹ رکھنے کی منظوری دی تھی جس میں وفاقی ترقیاتی پروگرام کا حجم 900 ارب روپے اور صوبوں کو 1235 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈ دیے جانا شامل تھا۔