پاکستان کی فوج نے پیر کے روز اعلان کیا ہے کہ افغانستان کے ساتھ ملنے والی 2611 کلومیٹر طویل تمام سرحد پر باڑ لگانے کا کام جاری ہے، جب کہ دہشت گردوں کی دراندازی روکنے کے لیے، بیسیوں نئی چوکیاں بھی تعمیر کی جا رہی ہیں۔
فوج کے ترجمان، میجر جنرل آصف غفور نے راولپنڈی میں اخباری نمائندوں کو بتایا کہ 2019ء کے آخر تک سرحد کے ساتھ مجموعی طور پر 338 سکیورٹی کی چوکیاں اور قلعے تعمیر ہو چکے ہوں گے۔ اُنھوں نے کہا کہ اب تک 42 تنصیبات تعمیر ہو چکی ہیں جب کہ 63 دیگر تنصیبات کی تعمیر کا کام جاری ہے۔
پاکستان نے گذشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ افغانستان کے ساتھ اُس کی سرحد پر ’’انتہائی خطرناک زونز‘‘ پر باڑ تعمیر ہوگی۔ طویل عرصے سے دونوں ملکوں نے علاقے میں سکیورٹی میں بہتری لانے اور سرحد کے سنگلاخ اور پہاڑی علاقوں میں دہشت گردوں کا پیچھا کرنے کا عہد کیا۔ لیکن، سرحد کے اصل مقام کے بارے میں افغانستان اختلاف کرتا ہے۔
جنرل نے بتایا کہ سرحد کے انتظام کا منصوبہ خطے سے دہشت گردی کا صفایا کرنے اور افغانستان میں استحکام لانے کی بین الاقوامی حمایت سے جاری کوششوں میں مدد کی پاکستان کی کوششوں کا حصہ ہے۔
غفور نے یہ باتیں امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر ایچ آر مک ماسٹر کی پاکستانی فوج کے سربراہ، جنرل قمر جاوید باجوا کے کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے فوری بعد کیں۔
ملاقات میں ہونے والی گفتگو کی تفصیلات بتاتے ہوئے، جنرل غفور نے کہا کہ ’’وہ (مک ماسٹر) دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں پاکستان کی کوششوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ اُنھوں نے ہماری کوششوں کو سراہا، اور جو بھی بات چیت ہوچکی ہے، دونوں فریق کی رائے ہے کہ دہشت گردی کے کنٹرول کے لیے پاک افغان سرحد کا انتظام بہتر بنانا ضروری ہے‘‘۔
جنرل غفور نے باڑ لگانے کے معاملے پر افغان نکتہ چینی کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کارروائی پاکستانی علاقے کے اندر کی جا رہی ہے، اور ’’اِس پر کسی کو اعتراض اٹھانے کا کوئی حق نہیں‘‘۔
افغان حکام نے نشانہ لگی اِس سرحد کو کبھی تسلیم نہیں کیا، جو’ ڈیورنڈ لائن‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ افغان حکام نے یہ بھی کہا ہے کہ باڑ لگانے سے خطے کے خاندانوں کے لیے مسائل میں اضافہ ہوگا، جو سرحد کے دونوں اطراف بستے ہیں۔