وزیرِ اعظم کے مشیر سرتاج عزیز نے پاکستان کو درپیش پانی کی قلت کا تذکرہ کرتے ہوئے بھارت پر زور دیا کہ وہ سیاچن کے مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرے اور وہاں سے اپنی فوج واپس بلائے۔
اسلام آباد —
پاکستان نے دنیا کے بلند ترین محاذ جنگ سیاچن گلیشیئر پر فوجوں کی موجودگی کو ماحولیات کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے ایک بار پھر اس علاقے سے فوجوں کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔
سیاچن کوہ ہمالیہ کے شمالی سلسلے میں واقع ہے اور 1984ء سے دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے درمیان یہ علاقہ متنازع چلا آ رہا ہے۔
پاکستانی وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے بدھ کو سرکاری ریڈیو سے گفتگو میں کہا کہ سیاچن کے گلیشیئرز پاکستان کے آبی ذخائر کے لیے اہم ذریعہ ہیں اور وہاں بھارتی افواج کی موجودگی سے برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔
سرتاج عزیز نے پاکستان کو درپیش پانی کی قلت کا تذکرہ کرتے ہوئے بھارت پر زور دیا کہ وہ سیاچن کے مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرے اور وہاں سے اپنی فوج واپس بلائے۔
سیاچن سطح سمندر سے بیس ہزار فٹ ( چھ ہزار میٹر) بلند ایک غیر آباد علاقہ ہے جہاں دونوں ملکوں کے لگ بھگ دس سے بیس ہزار فوجی موجود ہیں۔
پاکستان کا موقف رہا ہے کہ بھارت نے اپریل 1984ء میں ایک فوجی آپریشن کے ذریعے پاکستانی حدود میں واقع سیاچن گلیشیئر پر قبضہ کر لیا اور وہاں مستقل چوکیاں بنا لی تھیں۔
بھارت یہ تجویز پیش کر چکا ہے کہ اگر اس کی موجودہ فوجی پوزیشن کو تسلیم کر لیا جائے تو وہ سیاچن سے اپنی فوجیں واپس بلا سکتا ہے لیکن پاکستان اس سے اتفاق نہیں کرتا۔
دونوں ملکوں کے درمیان اس تنازع کے حل کے لیے متعدد بار مذاکرات بھی ہوچکے ہیں لیکن اس سے کوئی خاطر خواہ نتیجہ حاصل نہیں ہوسکا۔
سیاچن کے گیاری سیکٹر میں اپریل 2012ء میں مٹی اور برف کا بڑا تودہ پاکستانی فورسز کی ایک بیس کیمپ پر گرنے سے کم از کم از 139 افراد ہلاک ہو گئے تھے جس کے بعد ایک بیان میں اس وقت کے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بھی سیاچن کے مسئلے کو حل کرنے پر زور دیا تھا۔
پاکستانی مشیر سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ دونوں ملک پانی کے تنازعات کے حل کے لیے انڈس واٹر کمیشن اور جامع مذاکرات کے علاوہ مختلف ذرائع سے بات چیت کرتے چلے آ رہے ہیں۔
ادھر پاکستان کے لیے بھارتی ہائی کمشنر ٹی سی اے راگھوان نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان عوامی رابطوں اور ویزوں کے اجراء میں نرمی کا معاملے کی پالیسی پر بھارت عمل درآمد کے لیے تیار ہے لیکن اس پر تاخیر پاکستان کی طرف سے ہورہی ہے۔
بدھ کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’مختلف گروپوں کو سیاحتی ویزا جاری کرنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ لوگ حکومت کے مستند ٹوئر آپریٹرز کے ذریعے درخواست دیں، بھارت نے اپنے ٹوئر آپریٹرز کی فہرست پاکستان کو فراہم کردی ہے لیکن تاحال پاکستان کی طرف سے بھارت کو اس کی فہرست موصول نہیں ہوئی۔ یہ فہرست مل جائے تو اس پر فوراً عمل درآمد شروع ہوجائے گا۔‘‘
گروپ کی صورت میں ایک سے دوسرے ملک سفر کے خواہشمند افراد کو ویزوں کے اجرا سے متعلق معاہدے پر گزشتہ سال اتفاق ہوا تھا لیکن اس پر تاحال عمل درآمد شروع نہیں ہو سکا ہے۔
پاکستان میں نواز شریف کی حکومت بارہا یہ کہہ چکی ہے کہ بھارت سے اچھے ہمسایہ تعلقات کی خواہاں ہے اور دوستانہ تعلقات دونوں ملکوں کی اقتصادی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔
سیاچن کوہ ہمالیہ کے شمالی سلسلے میں واقع ہے اور 1984ء سے دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے درمیان یہ علاقہ متنازع چلا آ رہا ہے۔
پاکستانی وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے بدھ کو سرکاری ریڈیو سے گفتگو میں کہا کہ سیاچن کے گلیشیئرز پاکستان کے آبی ذخائر کے لیے اہم ذریعہ ہیں اور وہاں بھارتی افواج کی موجودگی سے برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔
سرتاج عزیز نے پاکستان کو درپیش پانی کی قلت کا تذکرہ کرتے ہوئے بھارت پر زور دیا کہ وہ سیاچن کے مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرے اور وہاں سے اپنی فوج واپس بلائے۔
سیاچن سطح سمندر سے بیس ہزار فٹ ( چھ ہزار میٹر) بلند ایک غیر آباد علاقہ ہے جہاں دونوں ملکوں کے لگ بھگ دس سے بیس ہزار فوجی موجود ہیں۔
پاکستان کا موقف رہا ہے کہ بھارت نے اپریل 1984ء میں ایک فوجی آپریشن کے ذریعے پاکستانی حدود میں واقع سیاچن گلیشیئر پر قبضہ کر لیا اور وہاں مستقل چوکیاں بنا لی تھیں۔
بھارت یہ تجویز پیش کر چکا ہے کہ اگر اس کی موجودہ فوجی پوزیشن کو تسلیم کر لیا جائے تو وہ سیاچن سے اپنی فوجیں واپس بلا سکتا ہے لیکن پاکستان اس سے اتفاق نہیں کرتا۔
دونوں ملکوں کے درمیان اس تنازع کے حل کے لیے متعدد بار مذاکرات بھی ہوچکے ہیں لیکن اس سے کوئی خاطر خواہ نتیجہ حاصل نہیں ہوسکا۔
سیاچن کے گیاری سیکٹر میں اپریل 2012ء میں مٹی اور برف کا بڑا تودہ پاکستانی فورسز کی ایک بیس کیمپ پر گرنے سے کم از کم از 139 افراد ہلاک ہو گئے تھے جس کے بعد ایک بیان میں اس وقت کے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بھی سیاچن کے مسئلے کو حل کرنے پر زور دیا تھا۔
پاکستانی مشیر سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ دونوں ملک پانی کے تنازعات کے حل کے لیے انڈس واٹر کمیشن اور جامع مذاکرات کے علاوہ مختلف ذرائع سے بات چیت کرتے چلے آ رہے ہیں۔
ادھر پاکستان کے لیے بھارتی ہائی کمشنر ٹی سی اے راگھوان نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان عوامی رابطوں اور ویزوں کے اجراء میں نرمی کا معاملے کی پالیسی پر بھارت عمل درآمد کے لیے تیار ہے لیکن اس پر تاخیر پاکستان کی طرف سے ہورہی ہے۔
بدھ کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’مختلف گروپوں کو سیاحتی ویزا جاری کرنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ لوگ حکومت کے مستند ٹوئر آپریٹرز کے ذریعے درخواست دیں، بھارت نے اپنے ٹوئر آپریٹرز کی فہرست پاکستان کو فراہم کردی ہے لیکن تاحال پاکستان کی طرف سے بھارت کو اس کی فہرست موصول نہیں ہوئی۔ یہ فہرست مل جائے تو اس پر فوراً عمل درآمد شروع ہوجائے گا۔‘‘
گروپ کی صورت میں ایک سے دوسرے ملک سفر کے خواہشمند افراد کو ویزوں کے اجرا سے متعلق معاہدے پر گزشتہ سال اتفاق ہوا تھا لیکن اس پر تاحال عمل درآمد شروع نہیں ہو سکا ہے۔
پاکستان میں نواز شریف کی حکومت بارہا یہ کہہ چکی ہے کہ بھارت سے اچھے ہمسایہ تعلقات کی خواہاں ہے اور دوستانہ تعلقات دونوں ملکوں کی اقتصادی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔