محض شعور اور آگاہی سے نوزائیدہ بچوں کی زندگیاں بچانا ممکن

محض شعور اور آگاہی سے نوزائیدہ بچوں کی زندگیاں بچانا ممکن

پاکستان کے اقتصادی مرکز کراچی سے تقریباً دو سو کلو میٹر دور سندھ کے پسماندہ ضلع مٹیاری کی آبادی ساڑھے پانچ لاکھ ہے۔ ملک کے بیشتر دیہی علاقوں کی طرح یہاں بھی صحت کی معیاری سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے نصف سے زائد بچوں کی پیدائش گھروں پر دائیوں کی مدد سے ہوتی ہے۔ لیکن آغا خان یونیورسٹی کی جانب سے لیڈی ہیلتھ ورکرز کو دی گئی اضافی تربیت کے بعد ان علاقوں میں ماں اور بچے کی صحت سے متعلق آگاہی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ عام فہم عام نہیں ہوتا۔ لیکن اگر اسے عام کردیا جائے تو گھربیٹھے بیٹھے ہی متعدد مسائل کا حل ممکن ہے۔ اگر چہ بہت سے پڑھنے والوں کے لیے یہ ایک نئی بات ہوگی لیکن صوبہ سندھ کے پسماندہ اضلاع ہالہ اور مٹیاری میں اسی عام فہم کو ہی عام کرکے بہت سے بچوں کی جانیں بچائی جاچکی ہیں۔ حال ہی میں عالمی جریدہ ’ دی لینسٹ “ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق بتاتی ہے کہ پاکستان میں ہر سال ساڑھے چار لاکھ بچے اپنی پیدائش کے ابتدائی دنوں میں ہی فوت ہوجاتے ہیں۔

اس تحقیق کے مرکزی مصنف ڈاکٹر ذوالفقار بھٹہ کہتے ہیں کہ اب نا امیدی کی کوئی بات نہیں کیوں کہ کسی مہنگے علاج یا نئی ٹیکنالوجی کے بجائے صرف چند بنیادی باتوں پرہی عمل کر لیا جائے تو ان اموات میں خاطرخواہ کمی ممکن ہے۔

آغا خان یونیورسٹی نے سیو دی چلڈرن کے تعاون اور حکومت ِ پاکستان کے قومی پروگرام برائے بہبودِ آبادی اور بنیادی دیکھ بھال کے تحت کام کرنے والی لیڈی ہیلتھ ورکرز کی مدد سے دو سال تک ہالہ اور مٹیاری میں مشاورت اور نوزائیدہ بچوں کی جان بچانے کے لیے پہلے سے زیرِ استعمال صحت کے طریقوں کی تعلیم اور بیداری پر توجہ دی۔ جس کے تحت ان علاقوں میں نوزائیدہ بچوں کی اموات میں پندرہ سے بیس فیصد تخفیف ہوئی۔

ڈاکٹر ذوالفقار بھٹہ جو آغا یونیورسٹی میں ڈویژن آف وومن اینڈ چائلڈ ہیلتھ کے سربراہ ہیں، نے وائس آف امریکہ کو بتایا ” یہ کمی ایک بڑی بات ہے اس لیے کہ ہم نے یہاں کوئی بڑا ڈاکٹر نہیں لگایا بلکہ اس پروجیکٹ میں جو چیزیں لوگوں کو سکھائی گئیں ان کی کوئی قیمت نہیں تھی ۔ مثلاً صفائی کا کیا خیال رکھا جائے ۔نوزائیدہ بچے کو فوری طور پر پہلے گھنٹے میں دودھ پلایا جائے۔ نہلانے میں تاخیر کی جائے تا کہ بچہ ٹھنڈا نہ پڑجائے۔ بچے کے کون سے خطرے کے ایسے آثار ہیں جن کو دیکھتے ہوئے فوری طور پر ڈاکٹر سے یا لیڈی ہیلتھ ورکر سے رجوع کرنا چاہئے ۔ اس تربیت کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ دیہی علاقوں کی ان خواتین اور ان کے فیملی ممبرز نے اس تین چار سال کے عرصے میں ہسپتالوں میں جاکر skill providers کے ہاتھوں ڈلیوری کروائی۔ “

پاکستان کے اقتصادی مرکز کراچی سے تقریباً دو سو کلو میٹر دور سندھ کے پسماندہ ضلع مٹیاری کی آبادی ساڑھے پانچ لاکھ ہے۔ ملک کے بیشتر دیہی علاقوں کی طرح یہاں بھی صحت کی معیاری سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے نصف سے زائد بچوں کی پیدائش گھروں پر دائیوں کی مدد سے ہوتی ہے۔ لیکن آغا خان یونیورسٹی کی جانب سے لیڈی ہیلتھ ورکرز کو دی گئی اضافی تربیت کے بعد ان علاقوں میں ماں اور بچے کی صحت سے متعلق آگاہی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

ڈاکٹر ذوالفقار بھٹہ

بیگی بھنبھور لیڈی ہیلتھ ورکر ہیں اور ہفتہ میں کئی بار وہ یہاں کی خواتین کو اپنی اور بچوں کی صحت سے متعلق مشارت دیتی ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ اس تربیت کے بعد یہاں کیا بہتری دیکھتی ہیں تو انھوں نہ بتایا ” ان لوگوں میں اتنا شعور نہیں تھا کہ ہسپتال جانا ہے وہاں پہ ڈلیوری کرنی ہے یا جو دائیاں ڈلیوری کر تی ہیں ان کے ہاتھوں کی صفائی یا جگہ کی صفائی ہوتی ہے یا نہیں تو اس میں بہت ساری بہتری آئی ہے۔ ان لوگوں کو یہ شعور آیا ہے کہ صفائی سے ہم بھی بچ سکتے ہیں اور ہمارے بچے بھی۔ “

ضلع مٹیاری کے ایک گاؤں کی رہائشی تین بچوں کی ماں فہمیدہ بھی اس منصوبے سے مستفید ہونے والوں میں شامل ہیں۔” پہلے ہمیں معلوم نہیں تھا کہ بچوں کا خیال کیسے رکھنا ہے لیکن جب سے یہ لوگ یہاں آئے ہیں ہم اپنا اور اپنے بچوں کا صحیح خیال رکھ سکتے ہیں۔“

پاکستان میں ماں اور بچے کی صحت سے متعلق بنیادی معلومات عام نہ ہونے کی وجہ سے کم عمر بچوں کی اموات میں نوزائیدہ بچوں کی شرح ستاون فیصد ہے جو خطہ کے دیگر ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ اس سوال پر کہ کیا لیڈی ہیلتھ ورکرز بھی ان بنیادی باتوں سے واقف نہیں۔ ڈاکٹر بھٹہ کہتے ہیں یقینا عام فہم آپ کو بہت کچھ بتاتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ صحت کی بنیادی باتیں کامن سینس کے ذریعے سامنے آئیں۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کا ایک تہائی وقت پولیو کے پروگرام میں صرف ہوتا ہے اس لیے جتنا وہ کرسکتی تھیں انھوں نے اس علاقے میں کیا۔

عائشہ خان لیڈی مٹیاری میں لیڈی ہیلتھ ورکر کے ہمراہ

ڈاکٹر بھٹہ مزید بتاتے ہیں کہ صحت سے متعلق بنیادی باتوں سے پڑھے لوگ بھی واقف نہیں۔ ” بدقسمتی سے پہلوٹھی کا دودھ جو پیدائش کے وقت فوراً بچے کو دینا چاھیے آدھی سے زیادہ عورتیں ضائع کردیتی ہیں ۔ اس میں بارہ سے چوبیس گھنٹے تک کی تاخیر ہوجاتی ہے کیوں کہ ہمارے پڑھے لکھے لوگوں کے ذہن میں یہ ہے کہ ماں کا دودھ جب اترے گا تو بے بی کو دیا جائے گا سو یہ ایسی چیزیں ہیں جو عام فہم نہیں ہیں اس میں ہمیں یقیناً ماس میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو یہ شعور دینا ہے کہ نوزائیدہ بچوں کی کیسے نگہداشت کی جائے۔نوزائیدہ بچے سے پہلے اس کی ماں کی کیسے نگہداشت کی جائے۔“

ابتدائی سطح پر کامیابی کے بعد اس پروجیکٹ کا دائرہ کار دیگر علاقوں تک بڑھایا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر ذوالفقار بھٹہ کہتے ہیں کہ اب چوں کہ اس پروجیکٹ کے نتائج سامنے آچکے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت پاکستان کو بلا تاخیر اسے سارے پاکستان میں رائج کرنا چاہئیے ۔

فہمیدہ بھی اس منصوبے سے مستفید ہوچکی ہیں۔

http://www.youtube.com/embed/TSxHm2RAHeQ