صوبہ خیبر پختون خواہ کے دارالحکومت پشاور میں گذشتہ شب ہونے والے بم دھماکوں میں ہلاکتوں کی تعداد 35 ہو گئی ہے جب کہ پولیس نے واقعہ کی تحقیقات کے سلسلے میں 25 افراد کو حراست میں لے کر اُن سے تفتیش شروع کر دی ہے۔
پولیس اور ہسپتال ذرائع کا کہنا ہے کہ ہفتہ اور اتوار کی درمیان شب خیبر سُپر مارکیٹ میں ہونے والے دھماکوں میں پولیس اہلکاروں اور صحافیوں سمیت 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے جن میں سے نصف اب بھی شہر کے مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔
بعض زخمیوں کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے جس کے باعث ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔
خیبر سپر مارکیٹ کا شمار پشاور کے مصروف ترین اور گنجان آباد علاقوں میں ہوتا ہے، جس کے قریب قبائلی علاقے خیبر ایجنسی کی انتظامیہ کے دفاتر اور فوجی اہلکاروں کی ایک رہائشی کالونی واقع ہے۔ اس علاقے میں مختلف اخبارات کے دفاتر بھی قائم ہیں۔
دھماکوں میں مرنے والوں میں مقامی اخبار سے منسلک ایک صحافی نوید انور بھی شامل ہے، جب کہ کم از کم تین دیگر صحافی زخمی بھی ہوئے ہیں جن کا علاج جاری ہے۔
پولیس کے مطابق نسبتاً کم شدت کے پہلے دھماکے کے چند منٹ کے اندر جیسے ہی پولیس اہلکاروں، امدادی کارکنوں اور عام شہریوں کی بڑی تعداد جائے وقوعہ پر اکٹھا ہوئی تو ایک اور طاقت ور بم دھماکا ہوا۔
بم دھماکوں کی نوعیت کے بارے میں متضاد دعوے کیے جا رہے ہیں۔ حملے کے کچھ دیر بعد پولیس حکام کا کہنا تھا کہ دوسرا دھماکا موٹر سائیکل پر سوار ایک خودکش بمبار کی کارروائی تھی جس نے ہجوم میں پہنچ کر دھماکا کر دیا لیکن مقامی تھانے میں درج کی گئی ایف آئی آر کے مطابق دونوں بم دھماکے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے کیے گئے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دوسرے دھماکے میں کم از کم 10 کلو گرام بارودی مواد استعمال کیا گیا جو موٹر سائیکل میں نصب تھا۔
رواں سال پشاور اور صوبہ خیبر پختون خواہ کے دیگر اضلاع میں دہشت گردی کے 50 واقعات میں لگ بھگ 450 افراد ہلاک اور 800 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
ان حملوں میں دو مئی کو ایبٹ آباد میں ہونے والے اُس خفیہ امریکی آپریشن کے بعد تیزی آئی ہے جس میں القاعدہ کے مفرور رہنما اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔
کسی تنظیم یا گروہ نے ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن دو مئی کو ایبٹ آباد میں امریکی اسپیشل فورسز کے ایک خفیہ آپریشن میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد مقامی عسکریت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے انتقامی حملے کرنے کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد مختلف شہروں میں فوجی اہداف کے علاوہ سفارت کاروں اور شہریوں کو بھی پرتشدد کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
گزشتہ ایک مہینے کے دوران صوبے کے مختلف علاقوں میں ہونے والے دہشت گردی کے 13 واقعات میں تقریباً 250 افراد ہلاک اور 350 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
پشاور میں یہ دھماکے افغان صدر حامد کرزئی اور امریکی انٹیلی جنس ادارے سی آئی اے کے ڈائریکٹر لیون پنیٹا کے اپنے الگ الگ دورہ اسلام آباد مکمل کرنے کے چند گھنٹے بعد ہوئے۔
تحریک طالبان پاکستان کے ایک ترجمان احسان اللہ احسان نے نامعلوم مقام سے جنوبی وزیرستان میں صحافیوں کو ٹیلی فون پر رابطہ کرکے دعویٰ کیا کہ پشاور بم دھماکوں میں اُس کی تنظیم ملوث نہیں۔
عسکریت پسندوں کے ترجمان کا کہنا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان مسجدوں اور شہریوں پر حملے نہیں کرتی اور کیوں کہ اُن کے اہداف مخصوص ہیں جن میں پاکستانی سکیورٹی فورسز اور امریکیوں کو مدد فراہم کرنے والے نمایاں ہیں۔