پاکستان میں عسکری ذرائع نے جمعہ کو بتایا کہ بھارتی فوج کشمیر کے کوٹلی اور بٹل سیکٹروں میں مسلسل گولہ باری کر رہی ہے، اور گزشتہ 12 روز کے دوران لائن آف کنٹرول پر فائر بندی کے معاہدے کی 34 متربہ ’’سنگین خلاف ورزی‘‘ کی جا چکی ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان نے کہا ہے کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لیے سفارتی و عسکری رابطوں سمیت ’’تمام راہیں‘‘ کُھلی ہیں۔
پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چودھری نے اسلام آباد میں ہفتہ وار نیوز کانفرنس میں کہا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے اور کمشیر میں متنازع سرحد یعنی لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر پائی جانے والی کشیدگی پر ضبط و ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی پالیسی پر کاربند رہے گا۔
’’لائن آف کنٹرول پر کشیدگی پر پاکستان کو تشویش تھی جسے ہندوستان تک پہنچایا گیا ... اب کچھ معقول اور قابل فہم اشارے مل رہے ہیں۔ اُمید کرتے ہیں کہ ایل او سی پر جو تناؤ ہے وہ کم ہو تاکہ امن کے لیے راستے کھل سکیں۔‘‘
پاکستان میں عسکری ذرائع نے جمعہ کو بتایا کہ بھارتی فوج کشمیر کے کوٹلی اور بٹل سیکٹروں میں مسلسل گولہ باری کر رہی ہے، اور گزشتہ 12 روز کے دوران لائن آف کنٹرول پر فائر بندی کے معاہدے کی 34 متربہ ’’سنگین خلاف ورزی‘‘ کی جا چکی ہے۔
ان کارروائیوں میں دو شہری ہلاک جب کہ چار پاکستانی فوجیوں سمیت 12 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
کشمیر میں حد بندی پر جاری کشیدگی کی وجہ سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے آئندہ ماہ نیو یارک میں ہونے والے اجلاس کے موقع پر بھارتی اور پاکستانی وزرائے اعظم کی متوقع ملاقات کے امکانات پر بھی مبصرین شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں۔
وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ اگر یہ ملاقات ہوتی ہے تو ناصرف گشیدگی میں کمی سے متعلق اقدامات پر تبادلہ خیال کا ایک موقع میسر آئے گا بلکہ دوطرفہ تعلقات میں بہتری پر بھی گفت و شنید ممکن ہو سکے گی۔
بھارتی میڈیا میں پاکستانی انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی پر عائد کیے گئے حالیہ الزامات پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اعزاز احمد چودھری نے اُنھیں پاکستان اور اس کے سلامتی سے متعلق قومی اداروں کو بدنام کرنے اور اسلام آباد اور کابل کے مابین بدگمانیاں پیدا کرنے کی سازش کا حصہ قرار دیا۔ تاہم اُن کے بقول یہ کوششیں یقیناً ناکام ہوں گی۔
بھارت کو تجارت کے لیے انتہائی پسندیدہ ملک کا درجہ دینے سے متعلق ایک سوال پر ترجمان نے کہا کہ اس اقدام سے قبل پاکستان میں موجود فریقوں میں اتفاق رائے اور بھارت کی جانب سے ’’نان ٹیرف بیریئرز‘‘ جیسے معاملات کو سلجھانا ضروری ہے۔
دریں اثنا اعزاز احمد چودھری نے بتایا کہ رواں ماہ کے اواخر میں افغان صدر حامد کرزئی کا دورہِ پاکستان متوقع ہے، جس کی حتمی تاریخوں کا تعین کیا جا رہا ہے۔
’’صدر کرزئی کے مجوزہ دورہ پاکستان کے ایجنڈا میں دوطرفہ اُمور کے علاوہ 2014ء کے اختتام تک افغانستان سے غیر ملکی افواج کی واپسی کے بعد کی صورتِ حال سمیت تمام علاقائی اُمور پر بات چیت شامل ہے۔‘‘
وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے افغان حکومت کی طالبان کے ساتھ مفاہمت کی کوششوں میں پاکستان کی ہر ممکن مدد جاری رکھنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امن خود پاکستان اور خطے میں امن کا باعث بنے گا۔
اعزاز احمد چودھری کا کہنا تھا کہ اگر طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے قطر کے دارالحکومت دوحا کے بجائے کسی دوسرے مقام کا انتخاب کرنا افغان حکومت کا فیصلہ ہو گا۔
پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چودھری نے اسلام آباد میں ہفتہ وار نیوز کانفرنس میں کہا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے اور کمشیر میں متنازع سرحد یعنی لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر پائی جانے والی کشیدگی پر ضبط و ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی پالیسی پر کاربند رہے گا۔
’’لائن آف کنٹرول پر کشیدگی پر پاکستان کو تشویش تھی جسے ہندوستان تک پہنچایا گیا ... اب کچھ معقول اور قابل فہم اشارے مل رہے ہیں۔ اُمید کرتے ہیں کہ ایل او سی پر جو تناؤ ہے وہ کم ہو تاکہ امن کے لیے راستے کھل سکیں۔‘‘
پاکستان میں عسکری ذرائع نے جمعہ کو بتایا کہ بھارتی فوج کشمیر کے کوٹلی اور بٹل سیکٹروں میں مسلسل گولہ باری کر رہی ہے، اور گزشتہ 12 روز کے دوران لائن آف کنٹرول پر فائر بندی کے معاہدے کی 34 متربہ ’’سنگین خلاف ورزی‘‘ کی جا چکی ہے۔
ان کارروائیوں میں دو شہری ہلاک جب کہ چار پاکستانی فوجیوں سمیت 12 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
کشمیر میں حد بندی پر جاری کشیدگی کی وجہ سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے آئندہ ماہ نیو یارک میں ہونے والے اجلاس کے موقع پر بھارتی اور پاکستانی وزرائے اعظم کی متوقع ملاقات کے امکانات پر بھی مبصرین شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں۔
وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ اگر یہ ملاقات ہوتی ہے تو ناصرف گشیدگی میں کمی سے متعلق اقدامات پر تبادلہ خیال کا ایک موقع میسر آئے گا بلکہ دوطرفہ تعلقات میں بہتری پر بھی گفت و شنید ممکن ہو سکے گی۔
بھارتی میڈیا میں پاکستانی انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی پر عائد کیے گئے حالیہ الزامات پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اعزاز احمد چودھری نے اُنھیں پاکستان اور اس کے سلامتی سے متعلق قومی اداروں کو بدنام کرنے اور اسلام آباد اور کابل کے مابین بدگمانیاں پیدا کرنے کی سازش کا حصہ قرار دیا۔ تاہم اُن کے بقول یہ کوششیں یقیناً ناکام ہوں گی۔
بھارت کو تجارت کے لیے انتہائی پسندیدہ ملک کا درجہ دینے سے متعلق ایک سوال پر ترجمان نے کہا کہ اس اقدام سے قبل پاکستان میں موجود فریقوں میں اتفاق رائے اور بھارت کی جانب سے ’’نان ٹیرف بیریئرز‘‘ جیسے معاملات کو سلجھانا ضروری ہے۔
دریں اثنا اعزاز احمد چودھری نے بتایا کہ رواں ماہ کے اواخر میں افغان صدر حامد کرزئی کا دورہِ پاکستان متوقع ہے، جس کی حتمی تاریخوں کا تعین کیا جا رہا ہے۔
’’صدر کرزئی کے مجوزہ دورہ پاکستان کے ایجنڈا میں دوطرفہ اُمور کے علاوہ 2014ء کے اختتام تک افغانستان سے غیر ملکی افواج کی واپسی کے بعد کی صورتِ حال سمیت تمام علاقائی اُمور پر بات چیت شامل ہے۔‘‘
وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے افغان حکومت کی طالبان کے ساتھ مفاہمت کی کوششوں میں پاکستان کی ہر ممکن مدد جاری رکھنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امن خود پاکستان اور خطے میں امن کا باعث بنے گا۔
اعزاز احمد چودھری کا کہنا تھا کہ اگر طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے قطر کے دارالحکومت دوحا کے بجائے کسی دوسرے مقام کا انتخاب کرنا افغان حکومت کا فیصلہ ہو گا۔