جنوبی وزیرستان میں جمعرات کو ایک مبینہ امریکی میزائل حملے میں اطلاعات کے مطابق پاکستانی طالبان کے پانچ کمانڈر ہلاک ہو گئے۔
قبائلی ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈرون حملے کا ہدف اعظم ورسک قصبے میں طالبان کمانڈر مولوی نذیر کے جنگجو تھے اور مرنے والوں میں اُس کا چھوٹا بھائی عمروزیر بھی شامل ہے جس کی عمر 27 سال بتائی گئی ہے جو تنظیم کا ایک سرکردہ کمانڈر اور جنگجوؤں کو افغانستان بھیجنے کے اُمور کی نگرانی کرتا تھا۔
بغیر پائلٹ کے طیارے سے کیے گئے میزائل حملے میں ہلاک ہونے والے دیگر شدت پسند کمانڈروں کے نام خان محمد، میراج وزیر اور اشفاق وزیر بتائے گئے ہیں۔ ماضی کی طرح وزیرستان میں تازہ ڈرون حملے کی تفصیلات کی آزاد ذرائع سے تصدیق تقریباََ ناممکن ہے۔
مولوی نذیر کے سینکڑوں جنگجو عمومی طور پر پاکستانی ریاست کے مخالف نہیں سمجھے جاتے اور اُن کے حملوں کا اصل ہدف سرحد پار افغانستان میں امریکہ اور اس کی اتحادی افواج ہیں، اس لیے مبصرین ڈرون حملے میں اہم کمانڈروں کی ہلاکت کو اس گروپ کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دے رہے ہیں۔
پاکستانی حکام نے 2007ء میں مولوی نذیر کے ساتھ ایک امن معاہدہ کیا تھا جس کے تحت اس عسکری تنظیم نےحکومت مخالف جنگجوؤں کو پناہ نہ دینے اور جنوبی وزیرستان میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے دوران پاکستانی فوج پر حملے نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی اور یہ معاہدہ تا حال برقرار ہے۔
وزیرستان میں مبینہ امریکی ڈرون حملوں میں اضافے کے ردعمل میں مولوی نذیر گروپ نے افغانستان میں غیر ملکی افواج پر حملوں میں شدت لانے کی دھمکی دی تھی۔
زیادہ تر امریکی ڈرون حملے شمالی وزیرستان میں کیے جاتے ہیں جو القاعدہ، حقانی نیٹ ورک اور پاکستانی طالبان کمانڈر حافظ گل بہادر کے جنگجوؤں کا گڑھ مانا جاتا ہے۔ ان میزائل حملوں میں ان تنظیموں کے اہم کمانڈر مارے جا چکے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق دو مئی کو ایبٹ آباد میں اُسامہ بن لادن کی خفیہ امریکی آپریشن میں ہلاکت کے بعد سے اب تک 16 اہم کمانڈر ڈرون حملوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
بعض مبصرین کا ماننا ہے کہ ایک طویل عرصے تک عسکریت پسندوں کی صفوں میں موجود عام جنگجوؤں کو نشانہ بنانے کے بعد حالیہ ہفتوں میں ڈرون حملوں کا ہدف القاعدہ، طالبان اور حقانی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے سرکردہ رہنما بنے ہیں اور جمعرات کو ہونے والے میزائل حملے میں مولوی نذیر کے اہم کمانڈروں کی ہلاکت بھی بظاہراسی تبدیل شدہ حکمت عملی کی کڑی ہے۔
لیکن ان مبینہ امریکی میزائل حملوں میں بے گناہ لوگوں کی ہلاکت کی اطلاعات پر امریکہ کو کڑی تنقید کا بھی سامنا ہے۔
لندن میں قائم دی بیورو آف انوسٹیگیٹو جرنلزم نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستانی علاقوں پر 2004ء سے اب تک 300 سے زائد ڈرون حملوں میں 2,900 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 750 عام شہری بھی شامل ہیں۔
پاکستانی رہنماؤں کا موقف ہے کہ یہ حملے اور ان میں ہونے والی شہری ہلاکتیں ملک میں امریکہ مخالف جذبات کو ہوا دے رہے ہیں لیکن اکثر ناقدین کا خیال ہے کہ میزائل حملوں کے اہداف کی نشاندہی میں امریکہ کو زمین پر موجود پاکستانی اہکاروں کا تعاون حاصل ہوتا ہے۔