پاکستان میں کرونا وائرس سے متاثر ہو نے والے لوگوں کی تعداد میں ایک دم سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اسی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے وزیرِاعظم عمران خان نے ایک اجلاس کی صدارت کی، جس میں تاحال یہی فیصلہ کیا گیا ہے کہ لاک ڈاؤن صرف جزوی طور پر جاری رہے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان میں مئی کے مہینے میں کوویڈ 19 سے متاثرہ افراد کی تعداد جس انداز سے بڑھی ہے، اس نے صحت کے عہدیداروں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے ۔
ڈاکٹر عمر ایوب خان پاکستان میں سارک کی پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر ہیں، کامن ویلتھ میڈیکل ٹرسٹ ہیلتھ انیشییٹیو پاکستان کے ڈائریکٹر اور امریکن میڈیکل سوسائٹی کے رکن اور رائل سوسائٹی آف میڈیسن، یونائیٹڈ کنگڈم کے اوور سیز فیلو بھی رہ چکےہیں۔ اس وقت پبلک ہیلتھ کے ایک اہم عہدیدار کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کوویڈ 19 کے مریضوں میں جس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، اسے دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کا صحت کا نظام اسے برداشت نہیں کر پائے گا۔
ڈاکٹر عمر خان نے توجہ دلائی کہ پاکستان میں مارچ کے مہینے میں جس وقت کرکٹ کے لیگ میچ ہو رہے تھے، کوویڈ 19 کا خطرہ اس وقت ظاہر ہو چکا تھا مگر تب بھی ہزاروں تماشائی کھیل دیکھنے کیلئے موجود تھے۔ اور بہت بعد میں یہ سلسلہ روکا گیا۔
پبلک ہیلتھ کے عہدیدار ڈاکٹر خان کہتے ہیں کہ یہ تصور بالکل غلط ہے کہ میت سے کرونا وائرس کا انفیکشن نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ اس وائرس کی وجہ سے جانبر نہیں ہو پاتے، انہیں اسپتال سے بہت احتیاط کے ساتھ، انہیں لگی ٹیوب اور کیتھیڈرز نکال کر، تمام تر حفاظتی اقدامات کے ساتھ ورثہ کے حوالے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، مگر ان کے کہنے کے مطابق ابتدا میں پوری احتیاط نہیں کی گئی اور اس کی وجہ سے بھی انفیکشن پھیلا۔
ڈاکٹر عمر خان نے بتایا کہ کم از کم صوبہ خیبر پختونخواہ کے اسپتالوں میں بستروں کی بہت کمی دیکھی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ طبی عملہ کوویڈ 19 سے متاثر ہو رہا ہے۔ جن کے ٹیسٹ ہوئے ہیں ان میں 2250 مثبت کیسز ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پیر کے دن تک 25 ڈاکٹر کرونا وائرس کے باعث زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہی صورتِ حال رہی تو تربیت یافتہ ڈاکٹروں کی کمی ہو جائے گی جب کہ یہ تعداد پہلے ہی کچھ زیادہ نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ وینٹی لیٹرز پر چلے جاتے ہیں ان کا بچنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ لیکن وینٹی لیٹررز پاکستان کے پاس بہت محدود تعداد میں ہیں۔ ڈاکٹر عمر خان کے مطابق صوبہ خیبر پختونخواہ میں ان کی تعداد صرف 100 کے قریب ہے۔
ایک قیاس یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ جو لوگ ایک مرتبہ کرونا کا شکار ہو چکے ہیں انہیں شاید دوبارہ یہ انفیکشن نہ ہو، جسے ہرڈ امیونیٹی کہا جا رہا ہے، مگر ڈاکٹر عمر کا کہنا ہے کہ اس وائرس کے بارے میں کچھ بھی یقین سے کہنا ممکن نہیں۔
ایک اور اہم بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ڈاکٹر عمر ایوب نے کہا کہ پاکستان میں اسپتالوں کا ویسٹ یا فضلہ ٹھکانے لگانے کا کوئی مؤثر انتظام نہیں ہے جو خطرے کا باعث ہے۔
پیر کے روز پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد، جس میں چاروں صوبوں کے اہل کار شریک تھے، ملک میں بعض مزید شعبے کھولنے کا اعلان کیا اور کاروبار ہفتے اور اتوار کو بند رکھنے کی ہدایت کی۔
ڈاکٹر عمر ایوب کہتے ہیں کہ پاکستان میں کرونا وائرس کی صورتِ حال کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیرِ صحت یاسمین راشد نے ان سے گفتگو میں انہیں بتایا ہے کہ اب تک جو پانچ ہزار سات سو ٹیسٹ کئے گئے ان کی بنیاد پر جو ٹریجیکٹری سامنے آئی ہے اس کے مطابق 22 فیصد لوگ پازیٹیو آئے ہیں، اس لحاظ سے اگر پنجاب میں تعداد چھ لاکھ ستر ہزار بتائی جا رہی ہے تو پشاور میں یہ تعداد ایک لاکھ سے بڑھ جاتی ہے۔
ڈاکٹر عمر ایوب خان نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں کرونا وائرس کی صورتِ حال تشویشناک ہوتی جا رہی ہے اور اگر اس بارے میں کوئی جامع اور مشترکہ پالیسی نہ اپنائی گئی تو حالات قابو سے باہر ہو سکتے ہیں۔