پیپلز پارٹی کی قیادت میں پاکستان کی مرکزی حکومت اپنے ابتدائی ایام میں اندرون ملک اور بیرونی دنیا میں بڑے زور وشور سے اس بات کا پرچار کرتی رہی ہے کہ اُس کی پالیسیوں کی بدولت شدت پسندی اور دہشت گردی کے خلاف فوجی آپریشنز کے لیے عوامی حمایت کا حصول ممکن ہوا۔
لیکن جنوبی وزیرستان، باجوڑ اور مالاکنڈ کے اضلاع میں بڑی فوجی کارروائیوں کے بعد بھی اس وقت ملک میں طالبان شدت پسندوں کے خودکش حملے اور دہشت گردی کی دیگر کارروائیاں جاری ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی سلامتی کو درپیش یہ خطرہ بدستور موجود ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے نمائندے بشمول وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ہر فورم پر دہشت گردی کے خلاف بیان تو دیتے ہیں لیکن تین سال کے دوران انسداد دہشت گردی کی کوئی موثر حکمت عملی وضع نہیں کی جاسکی ہے اور نہ ہی قانون میں پائی جانے والی کمزوریوں کو دور کیا جاسکا ہے تاکہ زیر حراست مشتبہ شدت پسندوں پر کامیاب مقدمات چلائے جا سکیں۔
بلوچستان کے سابق انسپکٹر جنرل اور وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے سابق سربراہ طارق کھوسہ رواں سال کے اوائل میں اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہوئے اور پیر کو اسلام آباد میں پہلی مرتبہ ایک سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے اُنھوں نے سرکاری سطح پر ایک موثر انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی وضع نہ کیے جانے پر افسوس کا اظہار کیا۔
اُنھوں نے کہا کہ 2009 کے اواخر میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے’ نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی ‘کے نام سے ایک ادارے کے قیام کا اعلان کیا تھا جس کا کام معلومات اکٹھی کرنا، ان کا تجزیہ کر کے حکومت کو مشورہ دینا اور ایک انسداد دہشت گردی حکمت کی عملی وضع کرنا تھا ۔
لیکن طارق کھوسہ نے کہا کہ بدقسمتی سے آج تک اس ادارے کا کوئی اجلاس منعقد نہیں کیا جاسکا اوراختیارات کے استعمال میں آزادی حاصل نہ ہونے پر اس ادارے کے پہلے سربراہ کو مستعفی ہونا پڑا۔
اُنھوں نے کہا کہ دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو مزید وقت ضائع کیے بغیر انسداد دہشت گردی کی ایک موثر حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے ۔ گذشتہ دنوں امریکی انتظامیہ نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں اس امر کی نشاندہی کی تھی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے پاس موثر منصوبہ بندی کا فقدان ہے جس کی وجہ سے پاکستانی فوج کو بھاری قیمت چکا کر ان علاقوں پر کنٹرول برقرار رکھنا پڑ رہا ہے جہاں سے طالبان شدت پسندوں کو مار بھگایا گیا ہے۔