پاکستان نے اپنے64برس پورےکرلیے۔ إِس عرصےمیں کیا کچھ ہوا، یہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اُس سب کو دہرانا مقصود نہیں۔ لیکن، یہ گفتگو کرنا ضروری ہے کہ بحیثیتِ قوم کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں، اُن کا تدارک کس طرح کیا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے، اِس دوران پاکستان نے بہت کچھ حاصل بھی کیا ہے۔
اتوار کو ’وائس آف امریکہ‘سے گفتگو میں شاعرِ مشرق علامہ اقبال کے فرزند ڈاکٹرجسٹس (ر) جاوید اقبال نے بتایا کہ، ’ آرا کا اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن میری دانست میں، جو تصور علامہ کے ذہن میں تھا، ہم نے وہ رُخ اختیار ہی نہیں کیا‘۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کا تصور پیش کرنے والے نے یہ بھی کہا تھا کہ سر سید کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے، اجتہاد لازم ہے، چونکہ علامہ کے ہاں، بنیادی طور پر سیاسی فلسفے کا عطر اجتہاد ہے۔ اُن کا قول ہے کہ اگر مسلمانوں نے تقلید کو نہ چھوڑا تو برصغیر سے اسلام کا نام و نشان مٹ جائے گا۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال کےالفاظ میں:’اجتہاد سےمراد نئی فکر، نئی سوچ ہے۔۔۔ اقبال کے فلسفے کے مطابق پاکستان ترقی کی منازل تب ہی طے کرسکتا ہے( کہ اجتہاد کی بنا پر نئی سوچ سامنے آئے)۔ علامہ نے فکر میں جدت پر زور دیا تھا اوریہ کہ وہ اجتہاد کا اختیار پارلیمنٹ کو دینا چاہتے تھے‘۔
اِس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہ جہاں غلطیاں ہوئی ہیں وہاں پاکستان نے بہت کچھ حاصل بھی کیا ہے، قائد اعظم کے اسکالر، پروفیسر شریف المجاہد کا کہنا تھا کہ تدارک کی صورت ضرور نکل سکتی ہے، لیکن اِس کے لیے نئی فکر پیدا کرنے اور اجتہاد کی ضرورت ہے، ِجس کا دارومدار تعلیم، بلکہ اعلیٰ تعلیم پر ہے۔ اُن کے الفاظ میں: ’اصل بات نئی فکر پیدا کرنا ہے۔۔۔ یہ ادراک اورتحیہ کرنا کہ آپ کے سامنے آپشنز کیا ہیں؟ لیکن کوئی آپشن تب ہی نظر آئے گا، جب آپ علم رکھتے ہوں گے۔‘
ایک سوال کے جواب میں جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ نوابزادہ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد ’لیڈرشپ کا فقدان‘ پیدا ہوگیا، اِسی سبب فوج کو آنا پڑا، کیونکہ فوج سے قبل بیوروکریسی میدان میں آچکی تھی۔ ’اِس کے بعد، ایک سلسلہ ہی چل پڑتا ہے کہ ہر دس بارہ سال کے بعد فوج کو مداخلت کرنی پڑتی ہے، کیونکہ صحیح قسم کی سیاسی قیادت ملک پیدا نہیں کرپایا۔ اِس کا شاید سبب یہ تھا کہ ہماری تربیت ہی نہیں ہوئی۔‘
پروفیسر شریف المجاہد کا کہنا تھا کہ فکری قیادت فراہم کرنےکی کوشش حکومت اور سول سوسائٹی دونوں کی طرف سے ہونی چاہیئے، ورنہ عوام اور حکومت میں تصادم ہوجائے گا۔
اِس سوال پر کہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کن اقدامات کی ضرورت ہے، جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ وہ اِس بات کے قائل ہیں کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آنی چاہیئے۔
اُنھوں نے کہا کہ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، اُسے مغرب اور اسلامی دنیا پر بہت زیادہ انحصار نہیں کرنا چاہیئے۔
اِس سلسلے میں ڈاکٹر جاوید اقبال نے ’علاقائی یونین‘ بنانے پر زور دیا جِس میں معاشی و تجارتی معاملات پر زیادہ زور ہو، جِس میں پاکستان، بھارت کےعلاوہ بنگلہ دیش، نیپال وغیرہ شامل ہوں۔ تاہم، اُن کا کہنا تھا کہ اِس کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ہمسایہ ممالک کشمیر کی ’مکمل خودمختاری‘ پر اتفاق کریں۔
اُنھوں نے علامہ اقبال کے خطبہٴ الہ آباد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ علامہ نے تصور دیا تھا کہ دونوں ممالک کی فوجیں ایک ہوں، ہندوستان کی اور اُن خطوں کی جِن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ ’مشرق‘ کا نیا تصور پیدا کیا جائے، جِس میں ایک کنفیڈرل قسم کا اتحاد بنے، جو کہ یورپی یونین کی طرز کا اتحاد ہو، تا کہ آپ اپنی جگہ آزاد بھی ہوں اور ساتھ ہی، آپ کے معاشی روابط بھی ہوں۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: