جمعہ کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے بندے کمرے میں ہونے والے خصوصی اجلاس میں اراکین پارلیمنٹ کو وزارت دفاع کے سیکرٹری اطہرعلی اور فوجی حکام نے ممبران کو جوہری اثاثوں اور ہتھیاروں کے تحفظ سے متعلق کیے گئے اقدامات پرتفصیلی بریفنگ دی ۔
اجلاس دو گھنٹے تک جاری رہا جس کے بعد پارلیمانی کمیٹی کے قائم مقام چیئرمین اور حکمران جماعت کے رکن قومی اسمبلی عبدالغنی تالپور نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کمیٹی کے اراکین میں حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کے علاوہ حز ب مخالف کی جماعتوں کے ممبران بھی شامل تھے اور متعلقہ عسکری حکام نے کمیٹی کے اراکین کے تمام سوالات کے تسلی بخش جوابات دیئے۔ ”اُنھوں نے ہمیں اتنا بتا دیا کہ یہ اثاثے محفوظ ہاتھوں میں ہیں اور اس حوالے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اُنھوں نے (کمیٹی میں شامل)تمام پارٹیوں کے ممبران کومطمئن کیا ۔ “
22مئی کو کراچی میں نیوی کی فضائی تنصیب پر دہشت گردوں کے حملے اور اُس سے قبل دو مئی کو پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں امریکی فورسز کے خفیہ آپریشن کے بعد پاکستان کے جوہری اثاثوں اور ہتھیاروں کی حفاظت سے متعلق شکوک و شہبات کے اظہار میں اضافہ ہوگیا تھا ۔ مختلف حلقے بشمول اراکین پارلیمنٹ بھی حکومت سے یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ اُنھیں اس حساس معاملے پر اعتماد میں لیا جائے اور قومی سلامتی سے متعلق اُن کے خدشات کو دور کیا جائے۔
پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت حالیہ دنوں میں اپنے اس موقف کو کئی بار دہرا چکی ہے کہ جوہری اثاثوں اور عسکری تنصیبات کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ہرممکن اقدامات کیے گئے ہیں۔ رواں ہفتے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت کابینہ کی دفاعی کمیٹی کے خصوصی اجلاس کے بعد جاری ہونے والے بیان میں بھی کہا گیا تھا کہ جوہری اثاثوں کی حفاظت کے لیے مربوط نظام موجود ہے۔