ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بحریہ کے اڈے پر دہشت گردوں کے منظم حملے کے بعد مسلح افواج کے سابق افسران اور تجزیہ کار اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ اس حملے کے بعد پاکستان کے جوہری اثاثوں کے محفوظ ہونے سے متعلق نا صرف اندرون ملک بلکہ عالمی سطح پر اب مزید سوالات اُٹھائے جائیں گے ۔
اُن کا کہنا ہے کہ پاکستان کئی سالوں سے عالمی برادری کو یہ باو ر کرانے کی کوششیں کر رہا ہے کہ اُس کی جوہری تنصیبات محفوظ ہیں لیکن شدت پسندوں نے بحریہ کے مرکزی اڈے میں گھس کر اس کے اہم اثاثوں (طیاروں) کو تباہ کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ حساس مقامات کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔
سابق سیکرٹری داخلہ تسنیم نورانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ ” دہشت گردوں نے ایک تو اپنی صلاحیت ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے اور دوسرا اُنھوں نے ملک کے مسلح افواج کی نااہلی ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے“۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش میں مصروف عناصر کی یہ حکمت عملی بھی ہو سکتی ہے کہ ایسا حملہ کرکے یہ تاثر دیا جائے کہ پاکستانی افواج جوہری اثاثوں کے دفاع کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔
تسنیم نورانی نے کہا عسکریت پسندوں نے اس حملے میں پاکستان بحریہ کے ایسے طیاروں کو ناکارہ بنایا جوملک کے دفاع کے لیے انتہائی اہم ہیں ۔ اُنھوں نے کہا کہ مسلح افواج کو حساس تنصیبات کے قریب جاری اپنی کمرشل (تجارتی) سرگرمیوں کو بند کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے فیصلہ کرنا ہوگا تاکہ ان علاقوں میں عام آدمی کی آمد ورفت کو روکا جاسکے۔ اُنھوں نے کہا کہ جہاں ضرورت ہووہاں سے اہم فوجی تنصیبات کو منتقل بھی کر دیا جانا چاہیئے۔
کراچی میں بحریہ کے اڈے کے ایک طرف برساتی نالا بہتا ہے اور نیوی کے ریٹائرڈ افسران کا کہنا ہے کہ وہاں سبزیوں کی کاشت کی اجازت بھی دی گئی ہے جو اُن کے بقول اس علاقے میں عام لوگوں کی آمد ورفت کا سبب بنی۔ جب کہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ شہری آبادی کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے بھی بحریہ کا یہ اڈہ نسبتاً ایک آسان ہدف بن چکا تھا۔
میجر جنرل ریٹائرڈ جمشید ایاز کا کہنا ہے کہ جدید اسلحے سے لیس دہشت گردوں کا نیوی کی بیس پر منظم حملہ یقیناباعث تشویش ہے اور عسکری اثاثوں کے تحفظ کے لیے حکمت عملی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
کراچی میں شہریوں اور پولیس کے درمیان رابطے کے لیے قائم ’سٹیزن پولیس لیزان کمیٹی ‘ کے چیئرمین احمد چنائے نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دہشت گردوں کے حملوں کو روکنے کے لیے خفیہ معلومات کے حصول کے نیٹ ورک کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے ۔
”اب گلی اور محلے کی سطح پر سرگرم ہونا پڑے گا تاکہ دہشت گرد جہاں بھی موجود ہوں اُن کی نشاندہی ہو سکے۔ ہم ہمیشہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ دہشت گرد بغیر مقامی حمایت کے اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اُن (دہشت گردوں ) کی مقامی حمایت کے نیٹ ورک کو ختم کیا جائے“۔
واضح رہے کہ اکتوبر 2009ء میں راولپنڈی میں فوج کے ہیڈکوارٹرز پر طالبان عسکریت پسندوں کے حملے کے بعدبھی دہشت گردوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں پر اندرون و بیرون ملک گہری تشویش کا اظہارکرتے ہوئے پاکستان کے جوہری اثاثوں کی سلامتی کے بارے میں سوالات اْٹھائے گئے تھے ۔
لیکن اِن خدشات کو رد کرتے ہوئے سیاسی اور عسکری قائدین نے کہا تھا کہ جوہری ہتھیاروں اور تنصیبات کی حفاظت کے لیے مضبوط و مربوط نظام موجود ہے اور ایسی صورت میں عسکریت پسندوں کی ان تک رسائی ممکن نہیں۔
جی ایچ کیو پرحملہ کرنے والوں نے درجنوں افراد کو یرغمال بنا لیا تھا اورتقریباً 22گھنٹوں بعد فوجی اہلکاروں نے دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کے بعد اپنا قبضہ بحال کر لیا تھا۔ اس حملے میں نو دہشت گردوں سمیت 23 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔