پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری دوطرفہ امن مذاکرات کے تحت دونوں ملکوں کے اعلیٰ عہدیداروں کا دو روزہ اجلاس پیر کو اسلام آباد میں شروع ہو گیا ہے۔
اجلاس کے پہلے روز روایتی جب کہ دوسرے دن جوہری ہتھیاروں سے متعلق اعتماد سازی کے اقدامات زیر غور آئیں گے۔
بات چیت میں پاکستانی وفد کی قیادت وزارت خارجہ ایڈیشنل سیکرٹری منور سعید بھٹی اور 10 رکنی بھارتی وفد کی سربراہی یشونت کے سنہا کر رہے ہیں، جب کہ جوہری ہتھیاروں پر ہونے والے مذاکرات میں بالا ورما اپنے ملک کے وفد کی قیادت کریں گے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان اب تک تین جنگیں ہو چکی ہیں لیکن 1998 میں دونوں ملکوں کی طرف سے جوہری ہتھیاروں کے تجربات کے بعد ماہرین مسلسل ان خدشات کا اظہار کرتے آئے ہیں کہ جنوبی ایشیا کے ان حریف ملکوں کے درمیان مستقبل میں ہونے والی کوئی بھی جنگ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی وجہ بن سکتی ہے۔
انھی خدشات کو کم کرنے کے لیے پاکستانی اور بھارتی قائدین نے مذاکرات کے ذریعے خاص طور پر فوجی رابطوں کو موثر بنانے کے لیے تجاویز کا تبادلہ کرنے کے ساتھ ساتھ ایک ایسے معاہدے پر بھی دستخط کر رکھے ہیں جو فریقین کو اس بات کا پابند کرتا ہے کہ کسی بھی میزائل تجربے سے قبل ایک دوسرے کو پیشگی اطلاع دی جائے گی۔
ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے اسلام آباد میں ہونے والے مذاکرات کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا۔ ’’ان کا مقصد ایک ہے وہ یہ ہے کہ اس خطے میں اور پاکستان اور بھارت کے درمیان ایسے اعتماد سازی کے اقدامات لیے جائیں جس سے استحکام کو نقصان نا پہنچے۔ اور ایک مستحکم طریقے سے دونوں ممالک اپنے اپنے دفاعی پروگراموں کو بڑھائیں۔‘‘
ترجمان دفتر خارجہ کے ترجمان کے بقول ان تمام اقدامات کا مقصد ایک دوسرے کے حالات کو سمجھنا ہے تاکہ غلط فہمی کی بنیاد پر کسی بھی طرح کی غیر مستحکم صورت حال سے بچا جا سکے۔
پاکستان اور بھارت ہر سال یکم جنوری کو اپنی جوہری تنصیبات کی فہرستوں کا تبادلہ کرتے ہیں۔ یہ تبادلہ 1988ء میں دونوں ملکوں کے درمیاں طے پانے والے ایک سمجھوتے کے تحت کیا جاتا ہے جس کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ جنگ کی صورت میں بھارت اور پاکستان ان حساس اہداف پر حملہ نہ کریں۔