بھارتی شہر امرتسر میں جمعہ کو مشتعل مظاہرین نے بس کا راستہ روک کر لائن آف کنڑول پر فائرنگ کے حالیہ واقعات پر احتجاج کرتے ہوئے پاکستان مخالف نعرے بازی بھی کی تھی۔
پاکستان نے نئی دہلی سے لاہور آنے والی ’دوستی بس‘ کو بھارتی شہر امرتسر میں مشتعل مظاہرین کے ایک گروہ کی جانب سے روکے جانے کے واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
بھارتی سکیورٹی فورسز کی جمعہ کو موقع پر موجودگی کی وجہ سے کسی مسافر کو کوئی گزند نہیں پہنچی تھی اور تمام مسافر تقریباً نصف گھنٹے کی تاخیر سے باحفاظت لاہور پہنچ گئے تھے۔
عینی شاہدین کے مطابق بھارتی مظاہرین لائن آف کنڑول پر فائرنگ کے حالیہ واقعات پر احتجاج کرتے ہوئے پاکستان مخالف نعرے بازی کر رہے تھے۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چودھری نے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرحد کی دوسری جانب دورانِ سفر ’دوستی بس‘ کے مسافروں کے تحفظ کو یقینی بنانا بھارت کی ذمہ داری ہے جس کو یقینی بنایا جائے۔
دونوں ملکوں کے درمیان سفری سہولت کے لیے شروع کی گئی بس سروس کے تحت پاکستان اور بھارت کے درمیان چلنے والی مسافر گاڑی کو ’دوستی بس‘ کا نام دیا گیا ہے۔
سرکاری میڈیا کے توسط سے ہفتہ کو جاری ہونے والے بیان میں اعزاز احمد چودھری نے کہا کہ کشمیر کو منقسم کرنے والی سرحد پر حالیہ واقعات کے باعث پیدا ہونے والے تناؤ اور عوامی جذبات کو کم کرنے کی ضرورت ہے، جس کے لیے دونوں ممالک کو بامقصد مذاکرات کرنے چاہیئے۔
بھارت کے وزیر دفاع نے رواں ہفتے الزام لگایا تھا کہ پاکستان کے خصوصی تربیت یافتہ فوجیوں نے لائن آف کنٹرول کے پونچھ سیکٹر میں فائر بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پانچ بھارتی فوجیوں کو ہلاک کر دیا۔
تاہم پاکستان نے اس الزام کو صریحاً مسترد کر دیا تھا۔ پاکستانی عسکری حکام کا دعویٰ ہے کہ رواں ہفتے ہی بھارتی فوجیوں کی لائن آف کنڑول پر فائرنگ سے بعض پاکستانی فوجی اور ایک عام شہری زخمی بھی ہوئے۔
فائرنگ کے ان واقعات اور دونوں ممالک کے عہدیداروں کی طرف سے سامنے آنے والے بیانات کے بعد دوطرفہ تعلقات میں ایک بار پھر تناؤ پیدا ہو گیا۔
اس دوران نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن پر مشتعل مظاہرین نے دھاوا بولنے کی کوشش بھی کی جس پر اسلام آباد نے بھارتی ڈپٹی ہائی کمیشنر کو وزارتِ خارجہ طلب کرکے احتجاج کیا۔
اس تمام صورت حال کا از خود جائزہ لینے کے لیے پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے جمعرات کو وزارت خارجہ میں ایک اعلٰی سطحی جلاس کی صدارت بھی کی۔
اُنھوں نے ’لائن آف کنڑول‘ پر پیش آنے والے فائرنگ کے واقعات پر رنج کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں کو فائر بندی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔
وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کی قیادت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ صورت حال کو مزید خراب ہونے سے بچائیں اور اس میں بہتری کے لیے اقدامات کریں۔
وزارتِ خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چودھری کا بھی کہنا ہے کہ پڑوسی ملک بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے مختلف سطحوں پر کام جاری ہے۔
وزیراعظم نواز شریف کہہ چکے ہیں کہ وہ نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر اپنے بھارتی ہم منصب منموہن سنگھ سے ملاقات کے منتظر ہیں، جس میں دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے سے متعلق اُمور پر بات چیت کی جائے گی۔
لائن آف کنڑول پر کشیدگی سے قبل دونوں ممالک کی طرف سے مثبت بیانات سامنے آئے تھے، جن میں تعطل کا شکار پاک بھارت جامع امن مذاکرات کی بحالی کے حق میں بھی بیانات شامل تھے۔
بھارتی سکیورٹی فورسز کی جمعہ کو موقع پر موجودگی کی وجہ سے کسی مسافر کو کوئی گزند نہیں پہنچی تھی اور تمام مسافر تقریباً نصف گھنٹے کی تاخیر سے باحفاظت لاہور پہنچ گئے تھے۔
عینی شاہدین کے مطابق بھارتی مظاہرین لائن آف کنڑول پر فائرنگ کے حالیہ واقعات پر احتجاج کرتے ہوئے پاکستان مخالف نعرے بازی کر رہے تھے۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چودھری نے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرحد کی دوسری جانب دورانِ سفر ’دوستی بس‘ کے مسافروں کے تحفظ کو یقینی بنانا بھارت کی ذمہ داری ہے جس کو یقینی بنایا جائے۔
دونوں ملکوں کے درمیان سفری سہولت کے لیے شروع کی گئی بس سروس کے تحت پاکستان اور بھارت کے درمیان چلنے والی مسافر گاڑی کو ’دوستی بس‘ کا نام دیا گیا ہے۔
سرکاری میڈیا کے توسط سے ہفتہ کو جاری ہونے والے بیان میں اعزاز احمد چودھری نے کہا کہ کشمیر کو منقسم کرنے والی سرحد پر حالیہ واقعات کے باعث پیدا ہونے والے تناؤ اور عوامی جذبات کو کم کرنے کی ضرورت ہے، جس کے لیے دونوں ممالک کو بامقصد مذاکرات کرنے چاہیئے۔
بھارت کے وزیر دفاع نے رواں ہفتے الزام لگایا تھا کہ پاکستان کے خصوصی تربیت یافتہ فوجیوں نے لائن آف کنٹرول کے پونچھ سیکٹر میں فائر بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پانچ بھارتی فوجیوں کو ہلاک کر دیا۔
تاہم پاکستان نے اس الزام کو صریحاً مسترد کر دیا تھا۔ پاکستانی عسکری حکام کا دعویٰ ہے کہ رواں ہفتے ہی بھارتی فوجیوں کی لائن آف کنڑول پر فائرنگ سے بعض پاکستانی فوجی اور ایک عام شہری زخمی بھی ہوئے۔
فائرنگ کے ان واقعات اور دونوں ممالک کے عہدیداروں کی طرف سے سامنے آنے والے بیانات کے بعد دوطرفہ تعلقات میں ایک بار پھر تناؤ پیدا ہو گیا۔
اس دوران نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن پر مشتعل مظاہرین نے دھاوا بولنے کی کوشش بھی کی جس پر اسلام آباد نے بھارتی ڈپٹی ہائی کمیشنر کو وزارتِ خارجہ طلب کرکے احتجاج کیا۔
اس تمام صورت حال کا از خود جائزہ لینے کے لیے پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے جمعرات کو وزارت خارجہ میں ایک اعلٰی سطحی جلاس کی صدارت بھی کی۔
اُنھوں نے ’لائن آف کنڑول‘ پر پیش آنے والے فائرنگ کے واقعات پر رنج کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں کو فائر بندی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔
وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کی قیادت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ صورت حال کو مزید خراب ہونے سے بچائیں اور اس میں بہتری کے لیے اقدامات کریں۔
وزارتِ خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چودھری کا بھی کہنا ہے کہ پڑوسی ملک بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے مختلف سطحوں پر کام جاری ہے۔
وزیراعظم نواز شریف کہہ چکے ہیں کہ وہ نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر اپنے بھارتی ہم منصب منموہن سنگھ سے ملاقات کے منتظر ہیں، جس میں دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے سے متعلق اُمور پر بات چیت کی جائے گی۔
لائن آف کنڑول پر کشیدگی سے قبل دونوں ممالک کی طرف سے مثبت بیانات سامنے آئے تھے، جن میں تعطل کا شکار پاک بھارت جامع امن مذاکرات کی بحالی کے حق میں بھی بیانات شامل تھے۔