وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ حکومت کا معاشی استحکام کا پروگرام کامیاب رہا ہے اور اب ترقی کے حصول کے ساتھ ساتھ غریب تک معیشت کے مثبت اثرات پہنچائیں گے۔
پاکستان کا اقتصادی سروے 2020-21 پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ رواں سال میں ٹیکس وصولیوں، ترسیلات زر، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے اور قرضوں ہر انحصار میں کمی واقع ہوئی ہے۔
شوکت ترین نے کہا کہ کرونا کی وجہ سے معیشت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تاہم حکومت کی بہتر پالیسوں کی بدولت گزشتہ برس جولائی سے معاشی سرگرمیاں بحال ہونا شروع ہو گئیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ عالمی وباء کے ماحول میں ترسیلات زر پاکستان کی معیشت کے لیے بڑا سہارا ثابت ہوئے جو کہ ریکارڈ 26 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں اور رواں مالی سال کے اختتام پر 29 ارب ڈالر تک پہنچنے کا اندازہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ مختلف مالیاتی اداروں کی جانب سے خیال ظاہر کیا گیا تھا کہ کرونا بحران کے دوران ترسیلات زر میں کمی آئے گی تاہم ان میں اضافہ ہوا ہے۔
شوکت ترین نے کہا کہ حکومت نے رواں سال کی مجموعی ترقی یعنی جی ڈی پی کا اندازہ 2 اشاریہ ایک فیصد رکھا تھا جو کہ بہتر معاشی حکمت عملی کے نتیجے میں 3 اعشاریہ 9 فیصد رہنے کی توقع ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے مینوفیکچرنگ، ٹیکسٹائل، زراعت اور تعمیراتی شعبے کو جو رعایات دیں اور صنعت کو گیس، بجلی کی مد میں مراعات دیں اس کے نتیجے میں مختلف شعبوں میں ترقی ہوئی ہے اور بڑے پیمانے کی مینوفیکچرنگ نے مثبت نمو کا مظاہرہ کیا جو تقریباً 9 فیصد تھی۔
غذائی اشیاء درآمد کرنے کے سبب مہنگائی ہوئی!
ان کا کہنا تھا کہ زراعت نے 2 اعشاریہ 77 فیصد نمو کی حالانکہ کپاس خراب ہونے کی وجہ سے ہمیں نمو کے منفی ہونے کا اندیشہ تھا لیکن باقی 4 فصلوں، گندم، چاول، گنا اور مکئی نے بہتر کارکردگی دکھائی۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ رواں سال میں غذائی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے پر قابو نہیں پا سکے جس کی وجہ غذائی اشیاء کے حوالے سے عالمی منڈی پر انحصار کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عالمی مارکٹ میں اگر اشیاء کی قیمتیں بڑھیں گی تو اس کے اثرات پاکستان پر بھی آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ غذائی اشیاء کی قیمتوں میں استحکام کے لئے حکومت زراعت پر توجہ دے رہی ہے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ پاکستان امریکہ سے پیسے نہیں بلکہ تجارت چاہتا ہے۔
ملکی قرضوں کے ایک سوال پر شوکت ترین نے بتایا کہ رواں برس مارچ کے اختتام تک ملک کا مجموعی قرضہ 380 کھرب روپے تھا جس میں 250 کھرب مقامی جب کہ تقریباً 120 کھرب غیر ملکی قرضہ ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں سال قرض میں تقریباً 17 کھرب روپے کا اضافہ ہوا جب کہ اس سے پچھلے سال کے دوران یہ اضافہ 36 کھرب روپے تھا۔ یوں ان کے بقول غیر ملکی قرض میں 70 کھرب روپے کی کمی واقع ہوئی ہے۔
کرونا کے باعث دو کروڑ افراد بے روزگار ہوئے!
شوکت ترین نے بتایا کہ کرونا وائرس کے آغاز کے وقت تقریباً 5 کروڑ 60 لاکھ افراد برسرِ روزگار تھے جن کی تعداد گھٹ کر 3 کروڑ 50 لاکھ پر آ گئی یعنی تقریباّ 2 کروڑ لوگ بے روزگار ہو گئے۔
انہوں نے کہا کہ اسمارٹ لاک ڈاؤن کی پالیسی کے سبب اکتوبر 2020 میں برسر روزگار افراد کی تعداد دوبارہ 5 تقریباً کروڑ 30 لاکھ ہو گئی۔ ان کے بقول وباء کے باعث بے روزگار ہونے والوں میں سے 25 لاکھ تاحال روزگار سے محروم ہیں۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر جو 19-2018 میں 7 ارب ڈالر پر چلے گئے تھے اب 16 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں جو 4 سال کی بلند ترین سطح ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
شوکت ترین نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے آئندہ اجلاس میں ریلیف کے حوالے سے وہ ابھی کچھ نہیں کہ سکتے البتہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(ایف اے ٹی ایف) کے حوالے سے ہماری کارکردگی اچھی ہے اور ہمارا خیال ہے کہ آئندہ اجلاس میں ہمیں ریلیف مل جائے گا۔
زراعت، برآمدات آئندہ سال کی ترجیح!
آئندہ سال کے لیے حکومت کی معاشی ترجیحات کا اظہار کرتے ہوئے وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ ملکی برآمدات، پیداوار اور ترسیلات زر کو بڑھانا ہے اور اس مقصد کے لئے زراعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی پر خاص توجہ دی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ زراعت میں فوڈ سرپلس کے لیے زرعی برآمدات میں اضافہ کیا جائے گا۔
شوکت ترین نے کہا کہ برآمدات ہی اصل معیشت ہے اور ملکی روایتی برآمدات کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ آئی ٹی کی برآمدات کو 45 سے 100 فیصد اضافہ پر لے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت آئندہ مالی سال میں بیرونی سرمایہ کاری کو بڑھانے کیلئے اقدامات کر رہی ہے اور چین کے اشتراک سے جاری راہداری منصوبوں کے فوائد عوام کو روزگار کی صورت مہیا ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت تخفیف غربت اور تعلیم کے شعبے پر بھی توجہ دے رہی ہے۔
شوکت ترین نے کہا کہ معیشت میں استحکام کے بعد اب حکومت غریب کو معیشت کے مثبت اثرات پہنچائے گی اور ان خواب پورے کرنے پر بھی توجہ دے گی۔
انہوں نے کہا کہ غریب آدمی کا خواب ہوتا ہے اس کا اپنا گھر ہو اس لئے نئے مالی سال کے بجٹ میں غریب اور نچلے طبقے کو گھر بنانے کے کیے چھوٹے اور آسان قرضے دیئے جائیں گے اس کے ساتھ ساتھ 40 سے 60 لاکھ گھرانوں کی زندگی آسان کرنے کیلئے اقدامات کیئے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ملکی شرح نمو کو 7 سے 8 فیصد پر لیجا کر ہی سالانہ 20 لاکھ نوجوانوں کو روزگار کے مواقع دیئے جا سکتے ہیں۔
وزیر خزانہ کے کہا کہ آئی ایم ایف کو بتا دیا ہے کہ بجلی کا ٹیرف بڑھا سکتے ہیں نہ ہی انکم ٹیکس میں اضافہ کر سکتے ہیں۔
وزیر خزانہ شوکت ترین کل (جمعہ) کو مالی سال 2021/22 کا بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کریں گے۔