وسطی ایشیا کے ملک تاجکستان کے صدر امام علی رحمٰن کی پاکستان آمد کے موقع پر دونوں ممالک میں جہاں تعلیم، تجارت، صحت، سرمایہ کاری اور دیگر شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق ہوا۔ وہیں دفاع اور سیکیورٹی میں تعاون پر بھی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے۔
پاکستان اور تاجکستان کے درمیان طے پائے جانے والے ایک ایسے ہی میمورنڈم آف انڈرسٹنڈنگ (ایم او یو) کے تحت پاکستان وسطی ایشیائی ریاست کو اسلحہ بھی فروخت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
اگرچہ پاکستان دنیا کے ان 10 سر فہرست ممالک میں شامل ہے جو اسلحے کے بڑے خریدار ہیں۔
پاکستان اپنی ضرورت کا دفاعی سامان چین کے علاوہ روس اور اٹلی سے حاصل کرتا ہے۔ تاہم گزشتہ چند برس میں پاکستان کی اپنی اسلحہ سازی کی صنعت بھی تیزی سے ترقی کر چکی ہے۔
اس صنعت کے تحت ملک کے پانچ بڑے ادارے نہ صرف اپنی ضرورت کا سامان پورا کرنے میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔ بلکہ وہ اب بعض مصنوعات برآمد بھی کر رہے ہیں۔
ان اداروں میں واہ کینٹ کی پاکستان آرڈیننس فیکٹری، کامرہ میں قائم پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس، ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا، نیشنل ریڈیو اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن (این آر ٹی سی) اور کراچی شپ یارڈ اینڈ انجینئیرنگ ورکس کے ادارے شامل ہیں۔
دفاعی پیداوار کونسی مصنوعات تیار کر رہے ہیں؟
پاکستان آرڈیننس فیکٹری میں چھوٹے اور درمیانے ہتھیاروں، ایمونیشن جس میں چھوٹے ہتھیاروں سے لے کر ایئرکرافٹ اور اینٹی ایئرکرافٹ ایمونیشن، آرٹلری، ٹینک اور اینٹی ٹینک ایمونیشن، مارٹر گولے اور دیگر ہتھیار شامل ہیں، تیار کیے جاتے ہیں۔
اسی طرح ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا میں مختلف ٹینکس، آرمرڈپرسنل کیریئرز اور دیگر دفاعی مصنوعات تیار کی جاتی ہیں۔ پاکستان کے تیار کردہ الخالد ٹینک، الضرار ٹینک، اے پی سی طلحہ، ٹی وی سیز اور الحدید ٹینک اہم اور معروف مصنوعات میں شامل ہیں۔
اگر پاکستان کے ایروناٹیکل کمپلیکس کی بات کی جائے تو وہاں جے ایف-17 تھنڈر طیاروں، ڈرون طیاروں سمیت ہلکے سپر مشاق طیارے تیار کیے جاتے ہیں۔ جب کہ اس کے علاوہ طیاروں کی اوور ہالنگ، مرمت اور اسمبلنگ کے ساتھ ساتھ ایوی ایشن ہارڈ ویئر کا بھی کام کیا جاتا ہے۔
این آر ٹی سی کی اگر بات کی جائے تو وہاں بھی جدید ملٹری آلات، جن میں ریڈیوز، ڈیجیٹل انٹرکام سسٹم، فیلڈ فونز، جیمرز، ڈیجیٹل فارنزک، مختلف روبوٹس، سرویلنس وہیکل سسٹم، ٹریکنگ سسٹم، ریڈارز اور دیگر آلات تیار کیے جارہے ہیں۔
جب کہ کراچی شپ یارڈ میں بحری جہازوں، بحری جنگی جہازوں اور سب میرینز کے ساتھ ساتھ چھوٹے بڑے آئل ٹینکرز، بڑی کرینز، ایل پی جی اسٹوریج ٹینکس کی تیاری اور ان کی مرمت کا کام کیا جاتا ہے۔
ملکی دفاعی پیداوار کا برآمدات میں حصہ
پاکستان آرڈیننس فیکٹری میں پانچ سال تک چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو رہنے والے اور سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے دفاعی پیداوار کے سابق چیئرمین جنرل ریٹائرڈ عبد القیوم کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان دفاعی پیداوار میں کافی ترقی کر چکا ہے۔
جنرل ریٹائرڈ عبد القیوم کا کہنا تھا کہ پاکستان کے قیام کے وقت ہندوستان میں 16 فیکٹریاں تھیں جو سب ہی ملک کے مشرقی یا شمالی علاقوں میں تھیں۔ ان میں سے کوئی ایک بھی یہاں (پاکستان میں) قائم نہیں تھی۔ سب ہی بھارت ہی کے پاس گئیں۔
تاہم ان کے بقول آج پاکستان ٹینک، ایمونیشن، حتیٰ کہ جہاز بنانے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔ نہ صرف اپنی دفاعی ضرورت کو پورا کیا جا رہا ہے۔ بلکہ ان آلات اور مصنوعات کو برآمد بھی کیا جا رہا ہے۔
جنرل ریٹائرڈ عبد القیوم نے بتایا کہ رواں برس پاکستان نے تقریباً 10 کروڑ ڈالرز کی دفاعی مصنوعات برآمد کی ہیں۔ اب سے ایک دہائی قبل تک یہ برآمدات تین سے چار کروڑ ڈالرز کی ہوتی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی پیداوار جنوبی ایشیا کے ممالک، جن میں سری لنکا اور بنگلہ دیش شامل ہیں، کے علاوہ مشرق وسطیٰ اور بعض یورپ کے ممالک کو بھی برآمد کی جاتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘ہکلر اینڈ کوک’ نامی جرمن کمپنی نے پاکستان کو جی تھری اسلحے کی ٹیکنالوجی دی تھی۔ پھر پاکستان نے اسے خود بھی تیار کیا۔ جب اس کمپنی کو اپنی پیداوار سے اضافی پیداوار درکار ہوتی تھی تو وہ پاکستان ہی سے منگواتے رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی مصنوعات معیاری ہونے کے ساتھ نسبتاً سستی ہوتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان وجوہات کے باعث یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان اب دفاعی مصنوعات کو بڑے پیمانے پر برآمد کرنے کے قابل ہو گیا ہے اور تاجکستان کی دفاعی اور سیکیورٹی ضرویات کو پورا کیا جاسکتا ہے۔
دفاعی ماہرین کے مطابق پاکستان کو ہائی ویلیو آلات جیسا کہ جے ایف-17 تھنڈر جنگی جہاز کے بھی آرڈرز ملنا شروع ہو چکے ہیں۔
حال ہی میں پاکستان نے تین ایسے طیارے نائیجیریا کے حوالے بھی کیے ہیں۔ جب کہ کئی ممالک سے اس بارے میں مذاکرات حتمی مراحل میں بتائے جاتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق یہی نہیں بلکہ پاکستانی تیار کردہ مشاق طیارے، جو تربیت کے ساتھ، نقل و حمل، ایئر سرویلنس اور دیگر دفاعی مقاصد کے لیے بہترین تصور کیے جاتے ہیں، فروخت بھی کیے جا چکے ہیں جب کہ ان کی طلب اب بھی موجود ہے۔
'دفاعی پیداوار کی صنعت ابھی ابتدائی مراحل میں ہی ہے'
پاکستان کی فوج کے ایک اور سابق جنرل اور دفاعی تجزیہ کار جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کے مطابق اب بھی پاکستان کی دفاعی پیداوار اس مرحلے پر نہیں پہنچی جہاں وہ منافع بخش بن چکی ہو۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ اب بھی ابتدائی مراحل سے گزر رہی ہے۔ مگر جہاں اس میدان میں سخت مسابقت موجود ہے، تو وہیں کچھ بہتر مواقع بھی ہیں جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ معیار بہتر ہونے کے ساتھ ہماری تیار کردہ مصنوعات سستی ہیں۔ یہی وہ وجہ بن سکتی ہے جس سے دنیا میں پاکستان کی تیار کردہ مصنوعات پسند کی جائیں۔
تاہم ان کے بقول وہ وقت تب آئے گا جب پاکستان کی تیار کردہ مصنوعات اپنا اعتماد برقرار رکھتے ہوئے تسلسل کے ساتھ پیداوار جاری رکھیں۔ تاہم ابھی وہ مرحلہ نہیں آیا۔
ایسا ہی خیال ایئر مارشل ریاض الدین شیخ کا بھی ہے۔
ان کے مطابق پاکستان نے ایوانکس کے میدان میں خاصی ترقی کی ہے اور جے ایف-17 تھنڈر طیاروں کی پاکستان میں تیاری اس کا بڑا ثبوت ہے۔
ریاض الدین کا کہنا تھا کہ اگرچہ اس طیارے کا روسی ساختہ انجن ابھی ایف-16 طیارے کے انجن کے برابر تو نہیں۔ البتہ اس کے باوجود بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ دنیا میں تیار ہونے والے طیاروں میں کافی بہتر انجن کا حامل جنگی جہاز ہے۔ اس کی سب سے اچھی بات اس کا کم قیمت ہونا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان آٹھ سے 12 جنگی ہوائی جہاز اپنی ضرویات پوری کرنے کے بعد بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور پروڈکشن لائن اگر مہیا ہو تو اس استعداد کو مزید بڑھایا بھی جاسکتا ہے۔
عالمی معاہدے ٹیکنالوجی کو برآمد کرنے میں رکاوٹ
جنرل امجد شعیب کا کہنا ہے کہ پاکستان نے میزائل ٹیکنالوجی میں کافی ترقی کی ہے اور یہ پاکستان کی اہم طاقت ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس میں لانگ رینج، اینٹی ایئر کرافٹ اور اینٹی ٹینک میزائلز کے علاوہ زمین سے زمین اور زمین سے فضا اور بحری پلیٹ فارمز سے فائر کیے جانے والے میزائلز بھی شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس ٹیکنالوجی میں پاکستان مکمل طور پر خود کفیل ہے۔
تاہم ان کے بقول میزائل ٹیکنالوجی پر مختلف اقسام کے عالمی معاہدے اس ٹیکنالوجی کو برآمد کرنے میں رکاوٹ کا باعث ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان ہر دو سال بعد دفاعی آلات کی بڑی نمائش خود بھی منعقد کرتا ہے جس میں دنیا بھر سے دفاعی اور فوجی مندوبین کو شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔