ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ ملک میں رائج تعلیمی نصاب میں ایسی چیزیں موجود ہیں جو کہ انتہا پسندی کو ہوا دیتے ہیں اور ان میں اصلاحات کے بغیر نتائج دورس اور دیرپا نا ہوں گے۔
اسلام آباد —
مبصرین پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کے فروغ کو سابقہ فوجی صدر ضیاء الحق کے دور سے جوڑتے ہیں جس میں اسلامی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے مخصوص نوعیت کی قانون سازی کے ساتھ ساتھ تعلیمی نصاب میں بھی بڑے پیمانے پر تبدیلی کی گئی۔
نواز شریف حکومت کہہ چکی ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے سے متعلق حکمت عملی کی تیاری پر کام ہورہا ہے مگر ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ ملک میں رائج تعلیمی نصاب میں ایسی چیزیں موجود ہیں جو کہ انتہا پسندی کو ہوا دیتے ہیں اور ان میں اصلاحات کے بغیر نتائج دورس اور دیرپا نا ہوں گے۔
ڈاکٹر اے ایچ نیر پاکستانی تعلیمی نصاب پر تفصیلی تحقیقات کرچکے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ درسی کتب میں مختلف مذاہب یا اقوام کے خلاف نفرت انگیز جملے کثرت کے ساتھ موجود ہیں۔
’’آپ دینی تعلیم دیں لیکن دین کی اچھی اچھی باتیں بتائیں۔ ناکہ صرف اپنے بلکہ دوسرے مذاہب کی باتیں بتائیں کہ کیسے انسانوں کو فلاح پر لانے کے لیے صدیوں سے کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس سے روشن دماغ بچے نکلیں گے نا کہ شدت پسند اور انتہا پسند۔‘‘
سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں نصاب میں اصلاحات کی کوششیں کی گئی تھی مگر وزارت تعلیم کے عہدیداروں کے مطابق مذہبی اور قدامت پسند جماعتوں کی طرف سے شدید دباؤ کی وجہ سے وہ کوششیں کامیاب نا ہو سکیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی قانون ساز مہرین رزاق بھٹو کا کہنا تھا کہ اسلام اور قرآن کی ’’صیحح‘‘ تشریح اور اساتذہ کی تربیت بھی معاشرے میں عدم برادشت کے خاتمے کے لیے ضروری ہے۔
’’نصاب اور نصاب کے پڑھانے والوں کا بھی بہت بڑا کردار ہے کہ تعلیم دینے والا کیا تعلیم دے رہا ہے تو چاہے مدرسے ہوں یا سرکاری یا پرائیویٹ اسکول ان پر نظر ہونی چاہیے۔‘‘
وزیر مملکت برائے مذہبی امور امین الحسنات شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وہ تعلیمی نصاب میں تبدیلی کے حامی ہیں مگر اس میں مذہبی اقدار اور پاکستان کے نظریے کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔
’’تاریخی طور پر جن لوگوں نے پاکستان کی حمایت نہیں کی وہ عالم ہوسکتے ہیں، اچھے سیاستدان ہوسکتے ہیں لیکن وہ ہماری قوم کے ہیرو تو نہیں ہوسکتے۔ اگر انہیں آپ ہیرو بناکر پیش کریں گے تو وہ نصاب ہمارے ساتھ لگا نہیں کھائے گا۔‘‘
پاکستان میں شعبہ تعلیم عدم توجہی کا شکار رہا ہے اور ملک کی مجموعی قومی پیداوار کا دو فیصد سے بھی کم اس پر خرچ کیا جاتا ہے۔
نواز شریف حکومت کہہ چکی ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے سے متعلق حکمت عملی کی تیاری پر کام ہورہا ہے مگر ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ ملک میں رائج تعلیمی نصاب میں ایسی چیزیں موجود ہیں جو کہ انتہا پسندی کو ہوا دیتے ہیں اور ان میں اصلاحات کے بغیر نتائج دورس اور دیرپا نا ہوں گے۔
ڈاکٹر اے ایچ نیر پاکستانی تعلیمی نصاب پر تفصیلی تحقیقات کرچکے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ درسی کتب میں مختلف مذاہب یا اقوام کے خلاف نفرت انگیز جملے کثرت کے ساتھ موجود ہیں۔
’’آپ دینی تعلیم دیں لیکن دین کی اچھی اچھی باتیں بتائیں۔ ناکہ صرف اپنے بلکہ دوسرے مذاہب کی باتیں بتائیں کہ کیسے انسانوں کو فلاح پر لانے کے لیے صدیوں سے کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس سے روشن دماغ بچے نکلیں گے نا کہ شدت پسند اور انتہا پسند۔‘‘
سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں نصاب میں اصلاحات کی کوششیں کی گئی تھی مگر وزارت تعلیم کے عہدیداروں کے مطابق مذہبی اور قدامت پسند جماعتوں کی طرف سے شدید دباؤ کی وجہ سے وہ کوششیں کامیاب نا ہو سکیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی قانون ساز مہرین رزاق بھٹو کا کہنا تھا کہ اسلام اور قرآن کی ’’صیحح‘‘ تشریح اور اساتذہ کی تربیت بھی معاشرے میں عدم برادشت کے خاتمے کے لیے ضروری ہے۔
’’نصاب اور نصاب کے پڑھانے والوں کا بھی بہت بڑا کردار ہے کہ تعلیم دینے والا کیا تعلیم دے رہا ہے تو چاہے مدرسے ہوں یا سرکاری یا پرائیویٹ اسکول ان پر نظر ہونی چاہیے۔‘‘
وزیر مملکت برائے مذہبی امور امین الحسنات شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وہ تعلیمی نصاب میں تبدیلی کے حامی ہیں مگر اس میں مذہبی اقدار اور پاکستان کے نظریے کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔
’’تاریخی طور پر جن لوگوں نے پاکستان کی حمایت نہیں کی وہ عالم ہوسکتے ہیں، اچھے سیاستدان ہوسکتے ہیں لیکن وہ ہماری قوم کے ہیرو تو نہیں ہوسکتے۔ اگر انہیں آپ ہیرو بناکر پیش کریں گے تو وہ نصاب ہمارے ساتھ لگا نہیں کھائے گا۔‘‘
پاکستان میں شعبہ تعلیم عدم توجہی کا شکار رہا ہے اور ملک کی مجموعی قومی پیداوار کا دو فیصد سے بھی کم اس پر خرچ کیا جاتا ہے۔