پاکستان میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی شرح گزشتہ سال کی سطح پر برقرار ہے اور لازمی تعلیم کی فراہمی سے متعلق آئین کی شق 25 اے کے دس سال گزرنے کے باوجود ملک بھر میں 17 فی صد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔
اسکولوں سے باہر ان بچوں میں سے دس فی صد بچے کبھی بھی اسکول نہیں گئے جب کہ سات فی صد بچے اسکول میں داخلے کے بعد مختلف وجوہات کی بنا پر تعلیم جاری نہیں رکھ سکے۔
ملک بھر میں تعلیم کی صورتِ حال پر نظر رکھنے والے غیر سرکاری ادارے 'ادارہ تعلیم و آگاہی' کی سالانہ رپورٹ برائے سال 2019 کے مطابق اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد میں کچھ کمی آئی ہے تاہم اب بھی چھ سے 16 سال کی عمر کے 17 فی صد بچے اسکول نہیں جا رہے۔
سالانہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گزشتہ سال اسکول نہ جانے والی بچوں کا تناسب 2018 کی شرح پر برقرار ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسکول چھوڑنے والے لڑکوں کی تعداد کے مقابلے میں اسکول چھوڑنے والی لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں پانچ سے 16 سال کی عمر کے بچوں کی تعداد پانچ کروڑ سے زائد ہے۔
بچوں کو تعلیم کی لازم فراہمی سے متعلق پاکستان کے آئین کی شق 25 اے پر عمل درآمد کے لیے بچوں کو اسکولوں میں داخل کرنے کے لیے صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے متعدد اقدامات کیے ہیں۔
سروے رپورٹ کے مطابق کشمیر، گلگت بلتستان اور پنجاب میں بچوں کے اندراج میں ایک سے دو فی صد سالانہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور دیہی علاقوں میں نجی اسکولوں میں جانے والے بچوں کی تعداد پانچ سال میں 30 فی صد سے گھٹ کر 23 فی صد ہو گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کشمیر میں 97 فی صد بچے اسکول جا رہے ہیں۔ گلگت بلتستان میں 93 فی صد، پنجاب و اسلام آباد میں 91 فی صد بچے اسکول جا رہے ہیں جب کہ بلوچستان میں 30 فی صد، سابق قبائلی اضلاع میں 27 فی صد، سندھ اور خیبر پختونخوا میں 14 فی صد بچے اسکول سے باہر ہیں۔
ادارہ تعلیم و آگاہی کی سربراہ بیلا رضا کہتی ہیں کہ تعلیمی معیار میں اگرچہ قدرے بہتری آئی ہے لیکن مجموعی طور پر تعلیم کی صورت حال ایک المیے کی نشاندہی کرتی ہے جو کہ حکومت کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہونی چاہیے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کے دعوؤں کے باوجود اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد میں کمی نہیں ہوئی۔ روایتی طریقوں سے اسکول جانے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا جا سکتا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے گزشتہ سال تعلیمی صورت حال میں بہتری ہوئی اور خواندگی کی شرح میں اضافہ بھی ہوا ہے۔
2014 سے 2019 تک پانچویں جماعت میں پڑھنے والے بچوں کی زبان اور ریاضی کے تعلیمی معیار میں 13 فی صد سے 17 فی صد تک بہتری ہوئی ہے۔ تاہم اب بھی بچوں کو خواندگی اور ریاضی کی بنیادی مہارت میں دشواری کا سامنا ہے۔
ماہر تعلیم مشرف زیدی کہتے ہیں کہ تعلیمی اعداد و شمار میں کوئی قابل قدر بہتری نظر نہیں آ رہی، جس کی وجہ پالیسی سازی میں تعلیم کی اہمیت نہ ہونا ہے۔
ان کے بقول ملک میں تعلیمی بحران کی وجہ سیاسی اور انتظامی عزم کی کمی ہے نہ کہ وسائل، انتظامیہ اور اساتذہ کی قلت۔
رپورٹ کے مطابق سرکاری اسکولوں کی نسبت نجی اسکولوں میں سہولیات بہتر ہیں اور 75 فی صد سرکاری اسکول اور 87 فی صد نجی اسکولوں میں مکمل چار دیواری ہے۔ جب کہ بیت الخلا کی سہولت 59 فی صد سرکاری اور 89 فی صد پرائمری اسکولوں میں دستیاب تھی۔
یہ سروے پاکستان کے تقریباً 150 دیہی اور 20 شہری حلقوں میں کیا گیا جس میں چھ سے 16 سال کی عمروں کے دو لاکھ 20 ہزار سے زیادہ بچوں کی زبان (اردو، سندھی، پشتو) سمیت انگریزی اور ریاضی میں مہارت کا جائزہ لیا گیا۔