منگل کا دن انتہائی افسوسناک ثابت ہوا جب ایک ہی دن میں بم دھماکوں اور دستی بم حملوں کے کم از کم تین واقعات ہوئے جن میں 19 افراد ہلاک اور 60 سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔
پاکستان میں انتخابات کی تاریخ قریب آنے کے ساتھ ہی پرتشدد واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اس حوالے سے منگل کا دن انتہائی افسوسناک ثابت ہوا جب ایک ہی دن میں بم دھماکوں اور دستی بم حملوں کے کم از کم تین واقعات ہوئے جن کے نتیجے میں مجموعی طور پر 19افراد ہلاک اور 60 سے زائد افراد زخمی ہو گئے۔
پشاور کے علاقے یکہ توت میں منگل کی رات عوامی نیشنل پارٹی کی کارنر میٹنگ میں خود کش دھماکا ہوا جس میں16 افراد ہلاک اور 35 زخمی ہو گئے۔ اے این پی کے مرکزی رہنما اور سابق ریلوے وزیر غلام احمد بلور بھی زخمیوں میں شامل ہیں۔
پشاور کے علاقے گلبہار نمبر ایک میں پیپلز پارٹی کے قومی اسمبلی کے امیدوار ذوالفقار افغانی کے گھر پر دستی بم سے حملہ کیا گیا تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہو۔
بلوچستان میں پاکستان مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر سردار ثناء اللہ زہری کے قافلے پر بم حملے میں ان کے بیٹے سکندر زہری، بھائی میر مہراور بھتیجا میر زید جاں بحق ہو گئے۔ ثناء اللہ کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ انتخابی مہم سے واپس اپنے علاقے زہری لوٹ رہے تھے۔ حملے میں دیگر 25افراد بھی زخمی ہوئے۔
کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں ایدھی ہوم کے قریب دستی بم کے حملے میں دو افراد زخمی ہوگئے۔ اس سے قبل حیدرآباد میں متحدہ قومی موومنٹ کے ایک امیدوار کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا جبکہ کراچی میں ہی فائرنگ کے مختلف واقعات میں سیاسی کارکنوں کو بھی قتل کردیا گیا۔ اسی شہر میں گزشتہ ہفتے گیس تنصیبات پر بھی حملے ہوئے جبکہ خیبر پختونخواہ میں پاور ہاؤس پر بھی حملے ہو چکے ہیں۔
موجودہ صورتحال پر سیاسی تجزیہ نگاروں اور مبصرین کی آراء یہ ہے کہ پرتشدد واقعات کا ایک مقصد انتخابات کو ملتوی کرانا یا کم از کم اسے سابوتاژ کرنا ہے۔
اب تک سب سے زیادہ حملے عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماؤں پر کیے گئے ہیں۔ مقامی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ اے این پی کو کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے مسلسل دھمکیوں کا سامنا ہے۔ تحریک طالبان ان حملوں کی ذمے داری قبول بھی کرتی رہی ہے۔
پُرتشدد واقعات اور حملوں کے پیش ِنظر نگراں حکومت نے مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی سیکورٹی بڑھا دی ہے جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بھی حکومت سے سیاسی رہنماوٴں کی سیکورٹی یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
تحریک طالبان نے کراچی کی با اثر جماعت متحدہ قومی موومنٹ کو بھی حملوں کا نشانہ بنائے جانے کی دھمکی دے رکھی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی میں ابھی تک بھر پور انداز میں انتخابی مہم شروع نہیں کی جا سکی ہے ناہی اے این پی اور متحدہ قومی موومنٹ یا پی پی پی کی جانب سے ابھی تک کوئی بڑا جلسہ منعقد کیا گیا ہے۔
وائس آف امریکہ کی جانب سے کئے گئے سروے کے بعد یہ پہلو بھی سامنے آیا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ اس بار باقاعدہ حکمت عملی کے تحت مین روڈز اور چوراہوں وغیرہ پر نا تو کوئی دفتر قائم کررہی ہے اور نہ ہی سابقہ سالوں کی طرح کارنر میٹنگز منعقد ہو رہی ہیں۔ ایم کیوایم نے بعض علاقوں میں مرکزی دفاتر کے بجائے تنگ اور گنجان گلیوں میں اپنے دفاتر بنائے ہیں اور وہیں سے محدود پیمانے پر سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
البتہ اس کے مقابلے میں نجی ٹی وی چینلز پر انتخابی مہم میں تیزی آگئی ہے اور مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی سمیت دیگر جماعتوں کی جانب سے روزانہ لاکھوں روپے کے اشتہارات ٹی وی پر پیش کئے جارہے ہیں۔ اخبارات میں بھی خصوصی ضمیمے شائع کئے جارہے ہیں۔ گویا اس بار میدانواں اور پارکوں کے بجائے میڈیا کے ذریعے زیادہ موثر انتخابی مہم دیکھنے کو ملے گی۔
پشاور کے علاقے یکہ توت میں منگل کی رات عوامی نیشنل پارٹی کی کارنر میٹنگ میں خود کش دھماکا ہوا جس میں16 افراد ہلاک اور 35 زخمی ہو گئے۔ اے این پی کے مرکزی رہنما اور سابق ریلوے وزیر غلام احمد بلور بھی زخمیوں میں شامل ہیں۔
پشاور کے علاقے گلبہار نمبر ایک میں پیپلز پارٹی کے قومی اسمبلی کے امیدوار ذوالفقار افغانی کے گھر پر دستی بم سے حملہ کیا گیا تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہو۔
بلوچستان میں پاکستان مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر سردار ثناء اللہ زہری کے قافلے پر بم حملے میں ان کے بیٹے سکندر زہری، بھائی میر مہراور بھتیجا میر زید جاں بحق ہو گئے۔ ثناء اللہ کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ انتخابی مہم سے واپس اپنے علاقے زہری لوٹ رہے تھے۔ حملے میں دیگر 25افراد بھی زخمی ہوئے۔
کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں ایدھی ہوم کے قریب دستی بم کے حملے میں دو افراد زخمی ہوگئے۔ اس سے قبل حیدرآباد میں متحدہ قومی موومنٹ کے ایک امیدوار کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا جبکہ کراچی میں ہی فائرنگ کے مختلف واقعات میں سیاسی کارکنوں کو بھی قتل کردیا گیا۔ اسی شہر میں گزشتہ ہفتے گیس تنصیبات پر بھی حملے ہوئے جبکہ خیبر پختونخواہ میں پاور ہاؤس پر بھی حملے ہو چکے ہیں۔
موجودہ صورتحال پر سیاسی تجزیہ نگاروں اور مبصرین کی آراء یہ ہے کہ پرتشدد واقعات کا ایک مقصد انتخابات کو ملتوی کرانا یا کم از کم اسے سابوتاژ کرنا ہے۔
اب تک سب سے زیادہ حملے عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماؤں پر کیے گئے ہیں۔ مقامی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ اے این پی کو کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے مسلسل دھمکیوں کا سامنا ہے۔ تحریک طالبان ان حملوں کی ذمے داری قبول بھی کرتی رہی ہے۔
پُرتشدد واقعات اور حملوں کے پیش ِنظر نگراں حکومت نے مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی سیکورٹی بڑھا دی ہے جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بھی حکومت سے سیاسی رہنماوٴں کی سیکورٹی یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
تحریک طالبان نے کراچی کی با اثر جماعت متحدہ قومی موومنٹ کو بھی حملوں کا نشانہ بنائے جانے کی دھمکی دے رکھی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی میں ابھی تک بھر پور انداز میں انتخابی مہم شروع نہیں کی جا سکی ہے ناہی اے این پی اور متحدہ قومی موومنٹ یا پی پی پی کی جانب سے ابھی تک کوئی بڑا جلسہ منعقد کیا گیا ہے۔
وائس آف امریکہ کی جانب سے کئے گئے سروے کے بعد یہ پہلو بھی سامنے آیا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ اس بار باقاعدہ حکمت عملی کے تحت مین روڈز اور چوراہوں وغیرہ پر نا تو کوئی دفتر قائم کررہی ہے اور نہ ہی سابقہ سالوں کی طرح کارنر میٹنگز منعقد ہو رہی ہیں۔ ایم کیوایم نے بعض علاقوں میں مرکزی دفاتر کے بجائے تنگ اور گنجان گلیوں میں اپنے دفاتر بنائے ہیں اور وہیں سے محدود پیمانے پر سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
البتہ اس کے مقابلے میں نجی ٹی وی چینلز پر انتخابی مہم میں تیزی آگئی ہے اور مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی سمیت دیگر جماعتوں کی جانب سے روزانہ لاکھوں روپے کے اشتہارات ٹی وی پر پیش کئے جارہے ہیں۔ اخبارات میں بھی خصوصی ضمیمے شائع کئے جارہے ہیں۔ گویا اس بار میدانواں اور پارکوں کے بجائے میڈیا کے ذریعے زیادہ موثر انتخابی مہم دیکھنے کو ملے گی۔