انتخابات سے قبل تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور اتوار کو بھی بلوچستان کے علاقے تربت میں نیشنل پارٹی کے ایک انتخابی جلسے کے قریب ایک بم ہوا۔
اسلام آباد —
پاکستان میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات 11 مئی کو ہونے جارہے ہیں جس کے لیے الیکشن کمیشن کی طرف سے ابتدائی مراحل طے ہو جانے کے بعد تمام سیاسی جماعتیں اور آزاد امیدواران نے اپنی اپنی انتخابی مہم بھرپور انداز میں شروع کردی ہے۔
امیدواروں کو الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابی مہم کے لیے 20 دن کا وقت دیا گیا ہے جو کہ نو مئی تک جاری رکھی جاسکے گی۔
انتخابات اور اس کے تمام عوامل کے دوران امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے الیکشن کمیشن نے وفاق اور صوبوں کی نگراں حکومتوں کو باقاعدہ خط بھی ارسال کردیا ہے جس میں انھیں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور امیدواروں کے علاوہ عام لوگوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے موثر اقدامات کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
الیکشن سے قبل ہی ملک کے مختلف حصوں خصوصاً خیبر پختونخوا، قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں انتخابی امیدواروں اور سیاسی کارکنوں پر شدت پسندوں کے حملوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
اتوار کو بھی بلوچستان کے علاقے تربت میں نیشنل پارٹی کے ایک انتخابی جلسے کے قریب ایک بم ہوا تاہم اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ دھماکے کے وقت پارٹی کے سربراہ عبدالمالک بلوچ بھی وہاں موجود تھے۔ دھماکے کے بعد فائرنگ کی بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
الیکشن کمیشن نے نگراں حکومتوں کو لکھے جانے والے خط میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سلامتی کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے پولیس اور رینجرز کے علاوہ فوج کی خدمات بھی حاصل کی جائیں۔
الیکشن کمیشن پہلے بھی انتخابات کے دوران فوج تعینات کرنے کی سفارش کرچکا ہے تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ پولنگ اسٹیشنوں پر فوجی اہلکاروں کی موجودگی کی بجائے انھیں چوکس رکھا جائے گا تاکہ بوقت ضرورت انھیں فوری طور پر طلب کیا جاسکے۔
ملک بھر میں نوے ہزار پولنگ اسٹیشنز میں سے الیکشن کمیشن نے 21 ہزار 326 کو حساس قرار دیا ہے اور ان میں دس ہزار 237 کو انتہائی حساس تصور کیا جارہا ہے۔
الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ وہ آزادانہ، منصفانہ، غیر جانبدارانہ اور پرامن انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے اور آئندہ جمعرات کو اس ضمن میں ایک اہم اجلاس بھی طلب کیا گیا ہے۔
کمیشن کے مطابق اس میں تمام نگراں حکومتوں کے نمائندے، وزارت داخلہ، دفاع اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلیٰ عہدیداران شریک ہوں گے اور اجلاس میں امن و امان سے متعلق اقدامات کے بارے میں حتمی فیصلے کیے جائیں گے۔
امیدواروں کو الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابی مہم کے لیے 20 دن کا وقت دیا گیا ہے جو کہ نو مئی تک جاری رکھی جاسکے گی۔
انتخابات اور اس کے تمام عوامل کے دوران امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے الیکشن کمیشن نے وفاق اور صوبوں کی نگراں حکومتوں کو باقاعدہ خط بھی ارسال کردیا ہے جس میں انھیں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور امیدواروں کے علاوہ عام لوگوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے موثر اقدامات کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
الیکشن سے قبل ہی ملک کے مختلف حصوں خصوصاً خیبر پختونخوا، قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں انتخابی امیدواروں اور سیاسی کارکنوں پر شدت پسندوں کے حملوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
اتوار کو بھی بلوچستان کے علاقے تربت میں نیشنل پارٹی کے ایک انتخابی جلسے کے قریب ایک بم ہوا تاہم اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ دھماکے کے وقت پارٹی کے سربراہ عبدالمالک بلوچ بھی وہاں موجود تھے۔ دھماکے کے بعد فائرنگ کی بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
الیکشن کمیشن نے نگراں حکومتوں کو لکھے جانے والے خط میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سلامتی کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے پولیس اور رینجرز کے علاوہ فوج کی خدمات بھی حاصل کی جائیں۔
الیکشن کمیشن پہلے بھی انتخابات کے دوران فوج تعینات کرنے کی سفارش کرچکا ہے تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ پولنگ اسٹیشنوں پر فوجی اہلکاروں کی موجودگی کی بجائے انھیں چوکس رکھا جائے گا تاکہ بوقت ضرورت انھیں فوری طور پر طلب کیا جاسکے۔
ملک بھر میں نوے ہزار پولنگ اسٹیشنز میں سے الیکشن کمیشن نے 21 ہزار 326 کو حساس قرار دیا ہے اور ان میں دس ہزار 237 کو انتہائی حساس تصور کیا جارہا ہے۔
الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ وہ آزادانہ، منصفانہ، غیر جانبدارانہ اور پرامن انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے اور آئندہ جمعرات کو اس ضمن میں ایک اہم اجلاس بھی طلب کیا گیا ہے۔
کمیشن کے مطابق اس میں تمام نگراں حکومتوں کے نمائندے، وزارت داخلہ، دفاع اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلیٰ عہدیداران شریک ہوں گے اور اجلاس میں امن و امان سے متعلق اقدامات کے بارے میں حتمی فیصلے کیے جائیں گے۔