انتخابات میں مبینہ دھاندلی پر دینی جماعتوں پر مشتمل اتحاد متحدہ مجلس عمل کے زیر اہتمام کل جماعتی کانفرنس (اے پی سی) میں شامل پاکستان مسلم لیگ ن لیگ کے علاوہ تمام جماعتوں نے حلف نہ اٹھانے کی تجویز کی حمایت کر دی ہے۔
ایم ایم اے کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ’’دیکھتے ہیں انتخابات میں کامیاب ہونے والی جماعت تحریک انصاف کے ارکان ایوان کس طرح چلائیں گے۔ ہم ان کو پارلیمان میں داخل نہیں ہونے دیں گے‘‘۔ مولانا فضل الرحمن نے ’’دوبارہ الیکشن کرانے کا مطالبہ بھی کردیا‘‘۔
آل پارٹیز کانفرنس کا اجلاس اسلام آباد متحدہ مجلس عمل کے رہنما میاں اسلم کی رہائش گاہ پر ہوا۔ کانفرنس کی صدارت پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اور ایم ایم اے کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے مشترکہ طور پر کی۔
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، گورنر سندھ محمد زبیر، وزیر اعظم آزاد کشمیر راجا فاروق حیدر، وزیر اعلٰی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الدین، سربراہ قومی وطن پارٹی آفتاب شیر پاؤ، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق؛ جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ شاہ اویس نورانی اور قائد ملت جعفریہ علامہ ساجد نقوی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی اے پی سی میں شرکت کی۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے مصروفیات کے باعث اے پی سی میں شرکت سے معذرت کرلی تھی۔ کل جماعتی کانفرنس میں انتخابی عمل اور نتائج پر سیاسی جماعتوں کے اعتراضات اور تحفظات کا جائزہ لینے کے بعد آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرنے پر غور کیا گیا۔
آل پارٹیز کانفرنس کے بعد مولانا فضل الرحمان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ عوام کا مینڈیٹ نہیں۔ عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکا ہے‘‘۔
انہوں نے دوبارہ الیکشن کرنے کا مطالبہ بھی کیا اور کہا کہ ’’جمہوریت کی آزادی کی لڑائی لڑیں گے۔ ہم نے پارلیمنٹ کے اندر اس الیکشن کمیشن کو اختیارات دئیے‘‘۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ’’دیکھتے ہیں یہ لوگ ایوان کس طرح چلائیں گے ہم ان کو داخل نہیں ہونے دینگے‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ’’دوبارہ انتخابات کرانے کے لیے تحریک چلائیں گے، تحریک چلانے کے لیے کمیٹی بنائی جائے گی‘‘۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے کہا کہ حلف نہ اٹھانے کے معاملے پر پارٹی سے مشاورت کریں گے جس کے بعد کوئی فیصلہ کریں گے۔
ذرائع کے مطابق، اے پی سی میں حلف نہ اٹھانے کی تجویز مولانا فضل الرحمان اور اسفند یار ولی نے دی۔
اے این پی سربراہ اسفند یار ولی نے موقف اختیار کیا کہ بائیکاٹ کا کامیاب طریقہ یہی ہے تمام جماعتیں حلف نہ اٹھائیں۔ اس تجویز کی حامی پی ایس پی سربراہ مصطفیٰ کمال نے بھی کی۔ جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے کہا کہ الیکشن سے پہلے ہی نتائج کا اندازہ ہو گیا تھا۔ ہمیں الیکشن سے پہلے ایک ساتھ بیٹھنا چاہیے تھا۔
اجلاس میں ایم کیو ایم کا موقف بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ ہم سے پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین نے بھی رابطہ کیا ہے۔ ’’تجویز کی حمایت کرتے ہیں، لیکن ہم ڈسے ہوئے بھی ہیں، تمام جماعتیں متفقہ فیصلہ کرینگی تو ساتھ دیں گے‘‘۔
ایم کیو ایم رہنما فیصل سبزواری نے اپنی ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’’انتخابی نتائج کے حوالے سے ہمارے تحفظات سب کے سامنے ہیں۔ ہم اپنا مقدمہ لڑ رہے ہیں اور لڑیں گے۔ تاہم، فی الوقت کل جماعتی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا‘‘۔
انہوں نے بتایا کہ فاروق ستار بھائی سے بروقت رابطہ نہ ہونے کے باعث وہ کانفرنس میں شریک ہو رہے ہیں، وہاں بھی وہی موقف اختیار کرینگے جو ایم کیو ایم کا ہے۔
پاکستان میں حالیہ عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں تربری حاصل ہوئی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن، متحدہ مجلس عمل سمیت کئی جماعتوں نے انتخابی نتائج کو مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ الیکشن میں منظم طریقے سے دھاندلی کی گئی ہے۔
پاکستان کے متوقع وزیر اعظم عمران خان نے، اپنی انتخابی جیت کے بعد، اپنی تقریر اپوزیشن جماعتوں کے الزامات کے بعد کسی بھی حلقے میں دوبارہ گنتی کرانے اور تحقیقات کرانے کی پیشکش بھی کردی ہے جس کا ابھی تک کسی بھی جماعت نے جواب نہیں دیا۔