27 جنوری کو لاہور کے علاقے مزنگ میں دو پاکستانی شہریوں کو قتل کرنے کے الزام میں گرفتار امریکی شہری رےمنڈ ڈیوس کو فی لحال لاہور میں عدالتی کاروائی کا سامنا ہے۔ اسے پہلی مرتبہ 2009 میں پاکستان کا ویزا جاری کیا گیا اور وہ ستمبر 2009 میں پاکستان آیا۔ اس کے بعد اس کے ویزا کی مدت میں اضافہ کیا جاتا رہا۔
رے منڈ ڈیوس کون ہے کیا وہ رےمنڈ ڈیوس ہے بھی یانہیں۔ مبصرین کے مطابق اور امریکی دفتر خارجہ کے مطابق اس بارے میں کچھ بھی واضح نہیں ہے۔ میڈیا میں شائع ہونے والی چند خبروں میں یہ لکھا گیاہے کہ وہ امریکہ کی اسپشل آرمڈ فورسز میں خدمات انجام دے چکا ہے۔ وہاں سے رٹائرمنٹ کے بعد اس نے ایک پرایئویٹ سکیورٹی کمپنی بنائی اور امریکی حکومت کے ساتھ ایک کانٹریکٹ کے تحت وہ پاکستان گیا۔ جبکہ امریکی وزارتِ خارجہ اسے اپنا سفارتکار کہتی ہے اور یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ اسے ویانا کنویشن کے تحت سفارتی استثنا دیا جائے۔
لاہور میں پیش آنے والے واقعے کے فوراً بعد واشنگٹن میں امریکی وزارتِ خارجہ نے یہ بیان جاری کیا تھا کہ گرفتار امریکی کا نام رےمنڈ ڈیوس نہیں ہے جبکہ وزارتِ خارجہ کی بریفنگ میں ترجمان پی جے کراؤلی نے رے منڈ ڈیوس کی شناخت کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا تھاکہ انہیں اس بات کی آزادی نہیں ہے کہ وہ اس امریکی کی شناخت ظاہر کر سکیں۔
رےمنڈ ڈیوس کو پاکستان کا ویزا واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے سے جاری کیا گیاتھا۔ امریکہ میں پاکستان کے سفیر نحسین حقانی نے اس وقعے کے بعد پریس کانفرنس میں میڈیا کے نمائندوں کو بتایا تھا کہ واشنگٹن سے تمام ویزے اسلام آباد کی اجازت سے جاری کیے جاتے ہیں اور یہ بھی کہا کہ انہوں نے اب تک 9 امریکیوں کو ویزے جاری کرنے سے انکار بھی کیا ہے کیونکہ انہوں نے ویزا درخواست میں جو کوائف درج کیے تھے وہ اس سے مختلف تھے جو سفارت خانے کے پاس تھے۔
تجزیہ کار یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا رے منڈ ڈیوس کو ویزا جاری کرنے سے پہلے اس کے کوائف یا ماضی اور حال کی سرگرمیوں کا پتا لگانے کی کوشش کی گئی تھی۔
واشنگٹن میں امریکی سفارت خانے کا کہناہے کہ ایسانہیں کیا گیا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے پاکستانی سفارت خانے کے ایک اہلکار کا کہناتھاکہ یہ ایک انٹرنیشنل پریکٹس ہے کہ جب کوئی حکومت کسی ملک سے اپنے اہلکار یا سفارت کار کو ویزا جاری کرنے کی درخواست کرتی ہے تو میزبان ملک، مہمان ملک کی درخواست اور فراہم کی گئی معلومات پر اعتبار کرتے ہوئے اس شخص کے بارے میں تحقیقات نہیں کرتا ۔
سفارت خانہ یہ بھی کہتا ہے کہ اس پاس اتنے وسائل ہی نہیں ہیں کہ وہ ویزا جاری کرنے سے پہلے کسی بھی شخص کے بارے میں جانچ پڑتال کر سکے۔ ان کے پاس یہ کام کرنے کے لیے اسٹاف نہیں ہےنہ ہی سفارت خانے کے پاس کوئی ایسا ڈیٹا بیس ہے جس میں امریکیوں کی معلومات موجود ہوں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ واشنگٹن کے سفارت خانے میں تمام ا سٹاف کے لیے پرسنل کمپیوٹرز تک نہیں ہیں اور بہت سے اہلکار لیپ ٹاپس پر کام کرتے ہیں۔
مگرمبصرین کہتے ہیں کہ پاکستان جیسا ملک جہاں مبینہ طور پر مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد موجود ہیں۔ جہاں کی عدالتیں خود پانچ امریکیوں کو دہشت گردوں سے روابط قائم کرنے کی خاطر پاکستان آنے کے الزام سزا دے چکی ہوں، ایسا کیوں ممکن ہے کہ آج بھی اس ملک کے سفارت خانے ویزے جاری کرنے سے پہلے کسی شخص کی جانچ پرتال کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
امریکہ میں مقیم تقریباً ہر شخص چاہے وہ یہاں کا شہری ہو یا نہ ہو اس حقیقت سے واقف ہے کہ یہاں قانونی طور پر مقیم ہر شخص کو ایک منفرد سوشل سیکورٹی نمبر دیا جاتا ہے جو اس شخص کی پہچان ہوتا ہے۔ یہ سوشل سیکورٹی نمبر اس شخص کے ماضی، حال، وہ کہاں رہتا ہے، کیا کام کرتا ہے، کس کے لیے کام کرتا ہے، اس نے کبھی کوئی جرم کیا ہے، اسے کبھی کسی ادارے سے نکالا گیاہے، اس کے مالی وسائل کیا ہیںٕ، اس کے کن کن بینکوں میں کھاتے ہیں، وہ ٹیکس دیتا ہے یا نہیں غرض یہ کہ اس شخص سے متعلق تمام تر معلومات سوشل سیکورٹی نمبر کے ذریعے پتا چلائی جا سکتی ہیں۔ یہ سب پتا چلانے کے لیے صرف ایک آدمی، انٹرنٹ کنکشن کے ساتھ ایک کمپیوٹر اور 40 سے50 ڈالر درکار ہوتے ہیں جو فیس کی مد میں کریڈٹ کمپنیوں کو دیے جاتے ہیں۔ اور 10 منٹ میں اس شخص کا ماضی اور حال سامنے آ جاتا ہے۔
واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانہ عام ویزا جاری کرنے کے لیے 120 ڈالر فیس لیتا ہے اور کاروباری ویزے کے لیے 180 ڈالر فیس لیتاہے۔ جبکہ ویرزا جاری کرنے کے لیے 4 سے 6 ہفتے کا وقت لیا جاتا ہے۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ سفارت خانہ چاہے تو امریکی شہریوں کے لیے اس فیس میں درخواست دہندہ کی جانچ پڑتال کے لیے کریڈٹ چیک کی فیس بھی شامل کر سکتا ہے اور اس طرح کسی بھی شخص کو ویزا جاری کرنے سے پہلے اس کی مکمل معلومات حاصل کر کے اپنا ڈیٹا بیس بھی تشکیل دے سکتا ہے ۔