پاکستان کے مختلف شہروں میں بجلی کی طویل دورانیے کی بندش کے خلاف احتجاج جاری ہے اور اس سلسلے میں اتوار کو لاہور میں بھی کئی مقامات پر مظاہرین نے ٹائر جلا کر سڑکیں بلاک کیں۔ بعض مقامات پر پولیس کے ساتھ مظاہرین کی جھڑپیں بھی ہوئیں۔
پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ شدید لوڈ شیڈنگ سے ڈینگی وائرس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، جس کے باعث لاہور کے بڑے ہسپتالوں میں ڈینگی وارڈوں کے نگران ڈاکٹروں نے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے ہسپتالوں کو لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔
اسی پس منظر میں وزیر اعلیٰ پنجاب نے ہفتہ کے روز وفاقی حکومت سے اپیل کی تھی کہ وہ لاہور میں جہاں ڈینگی وائرس کے مریضوں کی تعداد ہزاروں میں پہنچ چکی ہے کئی کئی گھنٹے لوڈ شیڈنگ کا نوٹس لے۔
فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی ایکسپورٹ کمیٹی کے چیئرمین اظہر مجید شیخ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ملک میں جتنی بجلی کی ضرورت ہے اس کا نصف فراہم ہو رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ لوڈ شیڈنگ سے اگر عوام بے حال ہیں تو صنعت کاروں کو بھی نقصان ہو رہا ہے۔ ’’مزدور بھاری تعداد میں بے روزگار ہیں اور ملک کی برآمدات میں بھی اربوں ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے۔ تقریباً 50 فیصد گیس اور بجلی نہیں ہے، اور اگر طلب پوری کی جائے تو آپ کی 14 ارب ڈالر کی برآمداد دگنی ہو سکتی ہیں۔‘‘
وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ توانائی کے بحران سے غافل نہیں ہے اور بجلی و گیس کی پیداوار بڑھانے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھا رہی ہے۔
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی یہ کہہ چکے ہیں کہ گزشتہ تین برسوں میں ان کی حکومت قومی گرڈ میں 3,000 میگا واٹ بجلی کا اضافہ کر چکی ہے۔