موسم گرم رہا تو اضافی لوڈشیڈنگ بھی رہے گی: وفاقی وزیر

اسلام آباد میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے طالبہ موم بتی کی روشتی میں پڑھ رہی ہے۔ (فائل فوٹو)

اسلام آباد میں پیر کو صحافیوں سے گفتگو میں وفاقی وزیر خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ بجلی کی طلب 20 ہزار میگا واٹ جب کہ پیدوار 13 ہزار میگا واٹ ہے۔

پاکستان میں حالیہ دنوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے دورانیہ میں غیر معمولی اضافے کے باعث مقامی ذرائع ابلاغ میں نواز شریف انتظامیہ پر تنقید میں شدت دیکھی گئی۔

تاہم وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ اس صورتحال کی وجہ گرمی میں اضافہ اور اس سے بجلی کی طلب اور رسد میں بڑھتا ہوا فرق ہے۔

اسلام آباد میں پیر کو صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ بجلی کی طلب 20 ہزار میگا واٹ جب کہ پیدوار 13 ہزار میگا واٹ ہے۔

انھوں نے بتایا کہ حکومت بجلی سے متعلق صورتحال میں بہتری کے لیے ہر ممکن کوششیں کر رہی ہے تاہم خشک و گرم موسم کے پیش نظر بجلی کی قلت کا مسئلہ بدستور رہے گا۔

’’ہم بارش کی توقع کر رہے ہیں۔ گزشتہ سات، آٹھ دن سے خشک موسم ہے جس کی وجہ سے ہمارے اس مسئلہ میں اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ جب کمپنیوں نے زیادہ بجلی لی تو (سٹسم ) عارضی طور پر بند ہو گئے، اور ہماری طلب 19 سے 20 ہزار تک چلی گئی۔‘‘

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ تین سے چار سالوں ہی میں بجلی کی قلت پر مکمل طور پر قابو پایا جا سکے گا اور اس وقت اضافی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ زیادہ تر پنجاب میں ہی ہے۔

صوبہ پنجاب کو حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور گزشتہ روز ہی وزیراعظم نواز شریف نے بجلی سے متعلق عوامی شکایات کا نوٹس لیتے ہوئے وزارت پانی و بجلی کے حکام کو اس بارے میں جلد اور موثر اقدامات کی ہدایت جاری کیں۔

بجلی کی لوڈشیدنگ میں اضافے کا یہ مسئلہ ایک ایسے وقت سامنے آیا جب حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے اپنے سیاسی اتحادیوں کے ساتھ آئندہ ماہ دارالحکومت اسلام آباد میں ایک احتجاجی ریلی کا اعلان کر رکھا ہے اور حکومت میں شامل عہدیدار اس کی شدید مخالفت کرتے آ رہے ہیں۔

سیاسی مبصر فرخ سلیم کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف کی اس معاملے میں مداخلت کی ایک وجہ بجلی کی بندش کے سیاسی منفی اثرات سے متعلق خدشات بھی ہو سکتے ہیں۔

’’مسلم لیگ (ن) کے منشور اور الیکشن میں جو سب سے زیادہ مرتبہ وعدے کیے گئے وہ لوڈشیڈنگ ختم کرنے ہی ہے۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جو کہ لوگوں کو سڑکوں پر لے آتا ہے۔ یہ پہلی حکومتوں کے دوران بھی ہم نے دیکھا۔ تو بہت ساری بیماریوں کی جڑ بجلی کا شعبہ بنتا ہے۔‘‘

بظاہر انہیں اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے وفاقی وزیر خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’’ہم صنعت کو پچھلے سات، آٹھ ماہ سے متاواتر بجلی دے رہے ہیں۔ ہم نے ان کی تین شفٹیں چلائی ہیں جس سے روزگار ملا ہے۔ پچھلے سال اور اسے پہلے ان دنوں میں جہاں جہاں صنعتیں ہیں وہاں لوگ مظاہرے کر رہے تھے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ صنعت کو اس طرح بجلی کی ترسیل سے عام گھریلو صارفین کو لوڈشیدنگ کا سامنا کرنا پڑا۔

وزیر برائے پانی و بجلی کا کہنا تھا کہ بجلی کی قیمتوں میں رعایت، بجلی چوری اور فرسودہ ترسیل کا نظام ملک میں بجلی کی قلت کا ایک اہم سبب ہے۔

جس کی وجہ سے ایک بار پھر حکومت کو بجلی گھروں کو تیل فراہم کرنے والی کمپنیوں کو 300 ارب روپے ادا کرنے ہیں۔ گزشتہ سال نواز انتظامیہ نے اس مد میں تقریباً 500 ارب روپے ادا کیے تھے۔