فنانشل ٹاسک فورس کی شرائط پوری نہ ہونے پر پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگ سکتی ہیں

پاکستان کی حکومت کے ایک اعلیٰ ترین عہدے دار کا کہنا ہے کہ منی لانڈنگ کے خاتمے اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے روکنے پر متعلق فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی شرائط پر عمل کرنے میں ناکامی کے باعث پاکستان کو اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

جب کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف حکومت کے حالیہ اقدامات سے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلنے میں مدد مل سکتی ہے۔۔

وزارت خزانہ کے سیکرٹری عارف احمد خان نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی سفارشات پر عمل درامد کرتے ہوئے سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔

وفاقی سیکرٹری کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کالعدم جماعتوں کے خلاف ملک بھر میں کریک ڈائون ہو رہا ہے اور ان جماعتوں کے زیر انتظام مساجد، مدارس اور فلاحی ادارے حکومتی انتظام میں لئے جا چکے ہیں۔

پاکستان نے رواں ہفتے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے ان جماعتوں پر پابندی عائد کرتے ہوئے ان کے اثاثے منجمد کر دیئے تھے، جنہیں سلامتی کونسل نے کالعدم قراد دے دیا تھا۔

عالمی برادری اور ایف اے ٹی ایف ایک عرصے سے پاکستان پر یہ زور دیتے آ رہے ہیں کہ کالعدم جماعتوں کے خلاف کاروائی کی جائے اور ان کی سرگرمیوں کو مکمل طور پر روکا جائے۔

ایف اے ٹی ایف نے فروری میں پیرس میں ہونے والے اپنے جائزہ اجلاس میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے مالی وسائل کی روک تھام کے سلسلے میں پاکستان کے اقدامات کو ناکافی قرار دیا تھا۔

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی پارلیمان کے ایوان زیریں میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے منی لانڈرنگ اور دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت کی روک تھام کے لئے ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔

پاکستان کے سابق سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود حکومت کے حالیہ اقدامات کو درست جانب پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ماضی میں عالمی ادارے کی سفارشات پر عمل درآمد میں جو کمی رہی ہے اسے حالیہ اقدامات کے ذریعے دور کر دیا گیا۔

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے گزشتہ سال پاکستان کو 'گرے لسٹ' میں شامل کرتے ہوئے اس سال ستمبر تک 27 نکاتی ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لیے کہا تھا۔

ایکشن پلان پر عمل نہ ہونے کی صورت میں پاکستان کو عالمی تنظیم کی 'گرے لسٹ' سے بلیک لسٹ میں شامل کر دیا جائے گا۔

ایف اے ٹی ایف کے ایکشن پلان پر پاکستان نے اپنی اگلی کارکردگی رپورٹ رواں سال مئی جبکہ حتمی رپورٹ ستمبر میں بھی پیش کرنی ہے۔

پاکستان کی جانب سے یہ اقدامات ایک ایسے وقت کیے جا رہے ہیں، جب کچھ ممالک پاکستان پر غیر ریاستی عناصر کی مدد کے الزام عائد کر رہے ہیں۔